Inquilab Logo

چینی دعوے کو خارج کر فلپائنی کارکن چین کے زیر نگرانی متنازعہ ساحل پرروانہ

Updated: May 15, 2024, 6:30 PM IST | Manila

چین کے زیر نگرانی متنازعہ ساحل پر ۱۰۰؍ فلپائینی رضاکار لکڑی کی کشتیوں میں روانہ ہوئے اس کا مقصد اس علاقے پر اپنا دعویٰ کر نا تھا، انہیں فلپینی سا حلی محافظوں کی سر پرستی حا صل تھی، چونچکہ امریکہ فلپن کا اتحادی ہےاس لئے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ سمندری تنازعہ چین اور امریکہ کے مابین مسلح تصادم کی شکل اختیار نہ کر لے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

 تقریباً ۱۰۰؍فلپائنی کارکنان اور ماہی گیروں نے صحافیوں کے ساتھ بدھ کو بحیرہ جنوبی چین میں ایک متنازعہ ساحل کی طرف سفر کیا، جہاں بیجنگ کے کوسٹ گارڈ اور ملیشیا کے مشتبہ جہازوں نے انہیں روکنے کیلئےطاقتور آبی توپوں کا استعمال کیا ہے۔جنہیںچینی در انداز کے طور پر دیکھتے ہیں۔
فلپائن کے ساحلی محافظوں نے کارکنوں اور ماہی گیروں پر دور سے نظر رکھنے کے لیے تین گشتی بحری جہاز اور ایک ہلکا طیارہ تعینات کیا، جو اسکاربورو شوال اور باہر کے پانیوں پر منیلا کی خودمختاری کا دعویٰ کرنے کیلئے مغربی زمبلیس صوبے سے روانہ ہوئے۔
بحریہ نے شرکاء پر نظر رکھنے میں مدد کیلئے ایک جہاز روانہ کیا۔ ، منتظمین میں سے ایک نے بتایا کہ تقریباً ۱۰۰؍چھوٹی لکڑی کی مچھلی پکڑنے والی کشتیوں کا ایک بیڑہ، ابتدائی طور پر ماہی گیروں کوکھانے کے پیکٹ اور ایندھن تقسیم کرنے میں مدد کرنے کیلئے سفر میں شامل ہوااور زمبلیزون واپس جانے سے پہلے ساحل سے تقریباً ۲۰؍سمندری میل (۳۷؍کلومیٹر) کے فاصلے پر ایک درجن علاقائی لنگر نما بچھائے۔
ہیزون نے کہا کہ لکڑی کی چار بڑی کشتیاں جس میں ۱۰۰؍سے زیادہ کارکنان تھے، جن میں ایک فلپائنی اور دو غیر ملکی رومن کیتھولک پادری، ماہی گیر اور صحافی شامل تھے، پھر شوال کی طرف روانہ ہوئے اور توقع کی جارہی تھی کہ وہ جمعرات کے اوائل میں اس کے بیرونی پانیوں تک پہنچ جائیں گی۔
کارکنان، جن کا تعلق ایک غیر سرکاری اتحاد سے ہے نے کہا کہ وہ تصادم سے بچنے کی کوشش کریں گے لیکن کسی بھی ہنگامی صورتحال کیلئے تیار ہیں۔ رافیلہ ڈیوڈ، ایک مرکزی منتظم نے کہا کہ ’’ہمارا مشن بین الاقوامی قانون کی بنیاد پرامن ہے اور اس کا مقصد اپنے خودمختار حقوق پر زور دینا ہے۔ہم اپنی علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے اشتعال انگیزی کے ساتھ نہیں بلکہ عزم کے ساتھ سفر کریں گے۔‘‘
دسمبر میں، ماہی گیروں کی کشتیوں کے ساتھ ڈیوڈ کے گروپ نے بھی ایک اور متنازعہ ساحل پر جانے کی کوشش کی لیکن ایک چینی جہاز کی طرف سےتعاقب کے بعد اس نے سفر مختصر کر دیا۔ چین نے فلپائن کے سرکاری بحری جہازوں کے ساتھ ۲۰۱۲ءکے تناؤ کے بعد اپنے ساحلی محافظوں کے جہازوں کے ساتھ گھیر کر اسکاربورو شوال پر مؤثر طریقے سے قبضہ کر لیا۔ چین کی کارروائی سے ناراض ہو کر، فلپائن کی حکومت نے ۲۰۱۳ءمیں تنازعات کو بین الاقوامی ثالثی میں لایا اور تین سال بعد ہیگ میں ایک ٹریبونل کے فیصلے سے بڑی حد تک کامیابی حاصل کی کہ مصروف سمندری راستے میں تاریخی بنیادوں پر مبنی چین کے وسیع دعوے ۱۹۸۲ءکے اقوام متحدہ کے سمندر کا قانون کنونشن کے تحت غلط تھے۔
اس فیصلے نے سکاربورو شوال کو چینی، فلپائنی اور ویتنامی ماہی گیروں کے لیے ماہی گیری کا روایتی علاقہ قرار دیا۔ ماضی میں، ماہی گیر طوفانی موسم میں اونچے سمندر میں بڑی لہروں سے بچنے کے لیے شوال میں لنگر انداز ہوتے تھے۔چین نے ثالثی کو مسترد کر دیا اور اس سے انکار جاری رکھا۔
دو ہفتے قبل، چینی کوسٹ گارڈ اور مشتبہ ملیشیا کے جہازوں نے فلپائن کے ساحلی محافظوں اور ماہی گیری کے بحری جہازوں پر پانی کی توپوں کا استعمال کیا جو اسکاربورو شوال میں گشت کر رہے تھے، جس سے دونوں جہازوں کو نقصان پہنچا۔
فلپائن نے شوال پر چینی کوسٹ گارڈ کی کارروائی کی مذمت کی، جو جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ خصوصی اقتصادی علاقےمیں واقع ہے۔ چینی ساحلی محافظ نے کہا کہ فلپائنی بحری جہاز کی جانب سے ’’چین کی خودمختاری کی خلاف ورزی ‘‘کے بعد اس نے ضروری اقدام کیا۔
فلپائن اور چین کے علاوہ ویتنام۔ ملائیشیا، برونائی اور تائیوان بھی علاقائی تنازعات میں ملوث رہے ہیں۔
ماضی میں چینی ساحلی محافظوں کے جہازوں نے بھی ویتنام، ملائیشیا اور انڈونیشیا کے قریب پانی میں داخل ہو کر کشیدگی اور مظاہروں کو جنم دیا تھا، لیکن چین کے ساتھ بڑے پیمانے پر اقتصادی تعلقات رکھنے والے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک بیجنگ کے بڑھتے ہوئے جارحانہ اقدامات کے خلاف اتنے جارحانہ طور پر تنقید نہیں کر رہے ہیں۔
فلپائن اور چین کے درمیان معمولی تصادم نے فلپائنی بحریہ کے اہلکارکو زخمی اور سپلائی کشتیوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس واقع سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ علاقائی تنازعات چین اور امریکہ کے درمیان مسلح تصادم میں تبدیل ہو سکتے ہیں، جو کہ ایک طویل عرصے سےمعاہدے کے تحت فلپائن کا اتحادی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK