Inquilab Logo

نصف صدی سے تراویح میں قرآن کریم سنا رہے ہیں حافظ حسام الدین ندوی

Updated: April 10, 2024, 4:00 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

حافظ حسام الدین نے معاش کے لئے کئی برس تک تجارت بھی کی لیکن تلاوت میں یا تراویح پڑھانے کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔

Hafiz Maulana Syed Husamuddin Nadvi. Photo: INN
حافظ مولانا سید حسام الدین ندوی۔ تصویر: آئی این این

نصف صدی سے تراویح میں قرآن کریم سنارہے ہیں حافظ مولانا سید حسام الدین ندوی۔ ۱۶؍سال کی عمر سے تراویح پڑھانا شروع کیا اوراب عمر کی ۶۶؍بہاریں دیکھ چکےہیں مگر یہ معمول برقرار ہے۔ وہ امراؤتی ضلع کے ناندگاؤں کھنڈیشور قصبے کے رہنے والے ہیں اورحیات الاسلام نام سے چلائے جانے والے دینی ادارے کے سربراہ بھی ہیں۔ علاقے میں دینی ضرورت کے پیش نظراس ادارے کی داغ بیل بزرگ عالم دین مولاناسید احمدندوی ؒ نے ڈالی تھی۔ حافظ حسام الدین اپنے قصبے میں قائم کردہ دینی ادارے کے اولین حفاظ میں سے ہیں، وہ اسی ادارے میں ۲۰؍برس سے شعبۂ حفظ پڑھا رہے ہیں۔ ان کے صاحبزادے بھی حافظ وعالم ہیں، بڑے بھائی کا بیٹا اوران کاداماد بھی حافظ قرآن ہے، بھانجے اورنواسے بھی عالم اور حافظ قرآن ہیں۔ 
حافظ مولانا سید حسام الدین ندوی نے مدرسہ حیات الاسلام میں ابتداء میں ۳؍ پارے حافظ عبدالرشیدکے پاس حفظ کئے۔ اس کےبعد ان کی طبیعت حفظ کرنے پرآمادہ نہیں تھی مگر والد صاحب مرحوم سید امین الدین کی شدید خواہش تھی کہ میں حفظ کروں چنانچہ دوسرے استاد حافظ محمدیٰسین صاحب ؒکے پاس سبق سنانا شروع کیا۔ حافظ یٰسین صاحب ؒ نے اتنی محبت سے پڑھایا اوراتنی شفقت فرمائی اورقرآن سے ایسا تعلق اورشوق پیدا فرمایا کہ نہ صرف حافظ قرآن بن گئے بلکہ ان کی نگرانی میں پہلی مرتبہ تراویح تلے گاؤں دَساسر میں پڑھائی اوریہاں ۵؍سال تک یہ سلسلہ قائم رہا۔ ایک سال پلے ہاؤس پر بادشاہ بلڈنگ میں سنائی اورایک سال سانتاکروز گولی بار میں سنائی۔ اس کے بعدمسلسل اپنے وطن میں پڑھاتے رہے۔ چندماہ قبل وہ مشفق استاد دارِفانی سے رخصت ہوگئے۔ ‘‘
انہوں نےعلاقے کے احوال بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ ہمارے علاقے میں پہلے الم تر سے پڑھنے کا عام رواج تھا۔ حفاظ بھی کم تھے اورلوگ ذہنی طور پرآمادہ بھی نہیں تھے۔ مدرسے کے قیام کے بعد سے اس جانب توجہ دی گئی اور چھوٹے چھوٹے گاؤں میں ذمہ داران سے رابطہ قائم کیا گیا، لوگوں کی ذہن سازی کی گئی اور انہیں یہ باور کرایا گیا کہ قرآن سننے کے عوض ان پرکسی قسم کا مالی بوجھ نہیں آئے گا۔ خدا کاشکر ہے کہ آج ہمارے قصبے میں ۵؍مساجد ہیں، ان مساجد کے علاوہ اطراف میں بھی تراویح پڑھانے کے لئے حفاظ کوبھیجا جاتا ہے۔ ان تمام حفاظ کی نگرانی بھی کی جاتی ہے کہ وہ کس طرح سے سنارہے ہیں اور تراویح پڑھانے سے قبل مدرسے میں بھی ان کوسنا جاتا ہے تاکہ مزیدازبر ہوجائے۔ اسی کے ساتھ طلبہ کی بھی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ وہ قرآن سنانے کےعوض کسی قسم کا مطالبہ یاتوقع نہ رکھیں، محض رضائے الٰہی کے لئے قرآن سنائیں۔ ‘‘
مدرسہ حیات الاسلا م میں حفظ کرنےوالے کچھ بچے انجینئر اورڈاکٹر بھی بن چکے ہیں اورکئی بچوں نے ایس ایس سی کا بھی امتحان دیا ہے۔ ان طلبہ سے مدرسے کے ذمہ دار اوراساتذہ رابطے میں رہتے ہیں اوریہ معلومات حاصل کرتے رہتے ہیں کہ وہ تراویح پڑھا رہے ہیں یا نہیں۔ 
حافظ حسام الدین نے معاش کے لئے کئی برس تک تجارت بھی کی لیکن تلاوت میں یا تراویح پڑھانے کے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔ یہی وجہ ہےکہ نصف صدی تک یہ مبارک سلسلہ جاری ہے اورآئندہ کے لئے وہ پُرعزم ہیں کہ باری تعالیٰ اپنا کلام سنانے کی مزیدتوفیق عطا فرمائےگا۔ گزشتہ ۲؍ برس سے وہ ادارے کی مسجد میں سماعت کررہے ہیں۔ 
انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ’’حفاظ کےلئے چند پاروں کی تلاوت مشکل نہیں ہے۔ شرط یہ ہےکہ وہ تلاوت کے لئے ایک وقت مقرر کرلیں ۔ حفاظ اگردرس وتدریس کے پیشے سے نہ بھی وابستہ ہوں تب بھی دیگرشعبوں میں رہتےہوئے بلا ناغہ تلاوت کا معمول قائم رکھا جاسکتا ہے۔ بس اس کے لئے فکر اور قرآن کریم سے تعلق شرط ہے۔ اسی بنیاد پرقرآن کریم یاد رہے گا اورتراویح سنانے میں کسی قسم کی پریشانی بھی نہیں ہوگی۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK