Inquilab Logo

سپریم کورٹ میں شنوائی ، ادھو خیمے اور شندے گرو پ میں الزام تراشیاں

Updated: August 04, 2022, 9:44 AM IST | new Delhi

کپل سبل نے ’دَل بدلی ‘ قانون کا حوالہ دیا تو ہریش سالوے نےپارٹی قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کیا ،چیف جسٹس نے تیکھے سوالات کئے، آج پھر شنوائی ہوگی

Shiv Sena chief Uddhav Thackeray and Chief Minister Eknath Shinde
شیو سینا سربراہ ادھو ٹھاکرے اور وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے

 شیو سینا میں بغاوت کے بعد ایکناتھ شندے کی پارٹی پر قبضے کی کوششوں کے درمیان سپریم کورٹ میں بدھ کو ادھو ٹھاکرے کی پٹیشنوں پر شنوائی کا آغاز ہوا  جس میں دونوں طرف کے وکلاء نے زوردار بحث کے ذریعے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ ادھو ٹھاکرے کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل اور ابھیشیک منو سنگھوی نے چیف جسٹس این وی رامنا کی صدارت والی بنچ جس میں جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس کرشنا مراری بھی شامل ہیں ، کے سامنے  بحث کا آغاز کیا۔
کپل سبل : شندے کابینہ اور ان کی حکومت پوری طرح سے ناجائز ہے کیوں کہ اس میں شامل کوئی بھی لیڈر کسی دوسری پارٹی میں ضم ہوا ہے اور نہ انہوں نے کوئی دیگر پارٹی بنائی ہے۔ اس صورت حال میں شندے گروپ کو نا اہل قرار دیا جانا چاہئے۔ شندے گروپ نے جو کچھ کیا ہے اگر اس کی اجازت دی جاتی ہے یا اسے تسلیم کرلیا جاتا ہے تو پھر ملک میں جمہوریت باقی ہی نہیں رہے گی۔ یہاں تک کہ کوئی بھی سرکار مستحکم نہیں رہ سکے گی۔ 
سنگھوی :قانون اور آئین کی رو سے دیکھا جائے تو شندے گروپ کو الگ ہونے کے بعد کسی دیگر پارٹی میں ضم ہونا چاہئے تھا یا پھر نئی پارٹی بنانی چاہئے تھی لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا ہے کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ اصل پارٹی نہیں ہیں اس کے باوجود یہ الیکشن کمیشن سے بھی رجوع ہوئے ہیں اور وہاں سے منظوری حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
 چیف جسٹس : (ہریش سالوے سے)کیا آپ نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا ہے ؟ آپ کس بنیاد پر الیکشن کمیشن گئے اور کس بنیاد پر پارٹی  کو ہتھیانے کی کوشش کررہے ہیں؟ 
سالوے:  جی نہیں ایسا نہیں ہے ، ہم رجوع ہوئے ہیں لیکن یہ ایک عام پروسیس ہے جسے پورا کیا جا نا ضروری تھا ۔  مہاراشٹر میںوزیر اعلیٰ کے استعفے کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی اوربی ایم سی کا الیکشن بھی آنے والا ہے۔ اس صورت میں یہ طے ہونا چاہئے کہ پارٹی کی نشانی کون سا گروپ استعمال کرے گا۔ 
چیف جسٹس (برہمی کے ساتھ):ہم نے صرف ۱۰؍ دن کے لئے شنوائی ملتوی کی تھی اس دوران آپ نے سرکار بنالی اور اب الیکشن کمیشن سے بھی رجوع ہو گئے ہیں اور گزشتہ سماعت میں آپ نے کہا تھا کہ ادھو گروپ کی پٹیشن خارج کردی جائے کیوں کہ ان باتوں کا کوئی مطلب نہیں رہا ہے ؟ 
سالوے: میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا ۔ میں ایسا نہیں کہہ رہا ہوں کہ ان باتوں پر غور نہیں ہونا چاہئے لیکن  ایک ایسی پارٹی کے لیڈر کو پارٹی اپنے پاس رکھنے کا اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے جب وہ اپنے ہی ساتھیوں کا اعتماد کھودے ۔ جس لیڈر کو اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے وہ پارٹی کی قیادت کیسے کرسکتا ہے ؟
چیف جسٹس: اگر یہ بات ہے تو پھر پارٹی بنانے کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا اور نہ جمہوریت میں کسی کو یقین رہے گا کیوں کہ ممبر اسمبلی منتخب ہونے کے بعد تو کوئی بھی کچھ بھی کرے گا اور اسے روکا نہیں جاسکے گا۔  

shiv sena Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK