Inquilab Logo

جوشی مٹھ کو بچانا ہے تو کم ازکم ۴۰؍ فیصد آبادی کو وہاں سے ہٹانا ہوگا

Updated: January 13, 2023, 12:25 PM IST | dehradun

بدری ناتھ مندر کے راستے پڑنے والی اس بستی نے سیاحتی مقام کی حیثیت حاصل کر لی تھی لیکن اب یہاں کے باشندے حکومت کی فراہم کردہ ہوٹلوں اور اسکولوں میں سر چھپانے پر مجبور ہیں

A woman of Joshi Mutt is worried outside her broken house; (Photo: PTI)
اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر کے باہر فکرمیں ڈوبی جوشی مٹھ کی ایک خاتون؛( تصویر: پی ٹی آئی)

  اس وقت ملک بھر میں اتراکھنڈ کی ایک بسی جوشی مٹھ سرخیوں میں ہے۔ ریاست کے دیگر علاقوں کی طرح پہاڑوں کے درمیان بسا یہ علاقہ زمین میں دھنسنے لگا ہےاور یہاں موجود مکانات کی دیواروں میں دراڑیں پیدا ہو گئی ہیں جو کہ بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کو محفوط مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ 
  حکام کا کہنا ہے کہ جوشی مٹھ میں زمین آہستہ آہستہ دھنس رہی ہے۔ ۲۰؍ ہزار افراد پر مشتمل یہ قصبہ ہے  ایک پہاڑی کے کنارے آباد ہے جہاں دو وادیاں ۶؍ ہزار ۱۵۱؍فٹ کی بلندی پر آپس میں ملتی ہیں۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار عمارتوں میں  سے ۶۷۰؍ سے زیادہ میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جن میں ایک مقامی مندر اور ایک رسیوں سے بنا پُل بھی شامل ہے۔ ایک ایسے علاقے میں جو حکام کے مطابق ۳۵۰؍میٹر چوڑا ہے، فٹ پاتھوں اور گلیوں میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں، دو ہوٹل اب ایک دوسرے پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں، پانی کھیتوں سے باہر اُبل رہا ہے جس کی وجہ واضح نہیں ہے۔ قصبے میں تقریباً ۸۰؍ خاندانوں کو ان کے گھروں سےا سکولوں اور ہوٹلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔  ڈیزاسٹر رسپانس ٹیمیں پہنچ چکی ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے لوگوں کو وہاں سے نکا لا جائے گا۔ جو لوگ اس وقت اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں وہ راتوں کو جاگتے رہیں کہ رات میں کہیں کوئی انہونی نہ پیش آئے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو حکومت کی جانب سے دی گئی عارضی چھت ( ہوٹل یا اسکول میں) کے نیچے کسی طرح رات گزارتے ہیں اور دن میں اپنے گھر کی خبر لینے جاتے ہیں جہاں ان کے جانور اور سامان وغیرہ رکھے ہیں۔  
  اگر میڈیا رپورٹ پر یقین کریں تواس صورتِ حال سے کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ جوشی مٹھ خود نازک ارضیاتی حالات میں وجود میں آیا تھا۔ یہ قصبہ جو ایک پہاڑی کی درمیانی ڈھلوان پر واقع ہے، تقریباً ایک صدی پہلے زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے ملبے پر تعمیر کیا گیا تھا، اور یہ زلزلے کے شکار علاقے میں واقع ہے۔یہاں کی زمین مختلف وجوہات کی بناء پر دھنسنا شروع کر سکتی ہے۔ ان میں زمین کی پرت کی حرکت (اس کی چٹان کا پتلا بیرونی خول) یا زلزلہ، یا پھر ایک بڑا سوراخ، زمین کی سطح کی تہہ کے گرنے کی وجہ سے زمین میں ایک دباؤ یا سوراخ اس وقت ہو سکتا ہے جب زیر زمین بہنے والا پانی سطح کے نیچے پتھروں کو ختم کرتا ہے۔لیکن زمین انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی دھنس سکتی ہے جیسے زیر زمین موجود پانی کا زیادہ نکالنا اور آبی ذخائر کی نکاسی، جس کے بارے میں ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ انڈونیشیا کا دارالحکومت جکارتہ دنیا کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں تیزی سے ڈوب رہا ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق دنیا بھر میں ۸۰؍ فیصد سے زیادہ زمین دھنسنے کی وجہ زمینی پانی کا ضرورت سے زیادہ اخراج ہے۔لگتا ہے کہ جوشی مٹھ کی پریشانیوں کی وجہ بھی انسانی سرگرمیاں ہیں۔ بچھلی کئی دہائیوں میں کاشتکاری کیلئے زمین کے نیچے سے بہت سا پانی نکالا گیا ہے، جس سے ریت اور پتھر نازک ہو رہے ہیں۔ مٹی دھنسنے کے ساتھ یہ قصبہ آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے۔ ماہر ارضیات ڈی پی ڈوبھال کہتے ہیں، ’صورتحال تشویشناک ہے‘۔ 
  حال ہی میں بی بی سی پر شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق  ۱۹۷۶ء کے اوائل میں ایک سرکاری رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ جوشی مٹھ کا علاقہ  دھنس رہا ہے اور اس علاقے میں بھاری تعمیراتی کاموں پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ پانی کی نکاسی کی مناسب سہولت نہ ہونا لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بن رہا ہے اور جوشی مٹھ رہائش کیلئے موزوں نہیں ہے۔‘لیکن اس انتباہ پر توجہ نہیں دی گئی۔ کئی دہائیوں کے دوران یہ جگہ لاکھوں زائرین اور سیاحوں کیلئے ایک مصروف گیٹ وے میں بن گیا تھا۔ یاتری تقریباً ۴۵؍ کلومیٹر دور  مندر بدری ناتھ کیلئے جاتے ہوئے یہاں رکتے ہیں۔  سیاح اس خطے میں ٹریک کرتے ہیں، چڑھائی کرتے ہیں اور اسکیٹنگ کرتے ہیں۔ یہاں بے شمار ہوٹل، قیام گاہیں اور کھانے پینے کی جگہیں ہیں۔ماہرین ارضیات ایم پی ایس بشت اور پیوش روتیلا کے مطابق شہر کے اردگرد متعدد ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹ بھی بنائے جا رہے ہیں۔ علاقے سے رابطے کو بہتر بنانے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے سڑکیں بچھائی گئی ہیں اور سرنگیں کھودی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ تپوون وشنوگڈ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ ایک بڑی تشویش کی وجہ ہے جس کی سرنگ ارضیاتی طور پر نازک علاقے جوشی مٹھ کے نیچے سے گزرتی ہے۔
  ماہرین ارضیات نے نوٹ کیا کہ دسمبر ۲۰۰۹ء میں پروجیکٹ کیلئے بورنگ آلات نے جوشی مٹھ میں ایک چٹان کی پانی والی تہہ کو پنکچر کر دیا تھا جس کے نتیجے میں روزانہ تقریباً ۷؍ کروڑ لیٹر زمینی پانی کا اخراج ہوتا رہا (جب تک اس کی مرمت نہیں کی گئی) جو کہ ۳۰؍ لاکھ لوگوں کیلئے کافی ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۱ءمیں ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے منسلک دو سرنگوں میں سے ایک اتراکھنڈ میں ایک بڑے سیلاب کے بعد بند ہو گئی تھی، جس میں ۲؍ سوسے زیادہ لوگ ہلاک اور لاپتہ ہو گئے تھے۔ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ اپنی وادیوں، گھاٹیوں، پہاڑیوں اور دریاؤں والی پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں واقع جوشی مٹھ ایک ’نازک منظر‘ پیش کرتا ہے۔ ریاست میں قدرتی آفات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ۱۸۸۰ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان زلزلے اور لینڈ سلائیڈنگ کے صرف پانچ واقعات میں ۱۳۰۰؍ سے زیادہ لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
   ۲۰۱۰ء سے ۲۰۲۰ءکے درمیان اس طرح کے شدید موسمی واقعات میں ۱۳۱۲؍افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً ۴۰۰؍دیہات کو رہائش کیلئے غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ایک اہلکار سشیل کھنڈوری کی ایک تحقیق کے مطابق، صرف ۲۰۲۱ءمیں اتراکھنڈ میں لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور برفانی تودے گرنے  سے ۳۰۰؍ سے زیادہ جانیں گئیں۔ کھنڈوری نے کہا کہ’ ’یہ بنیادی طور پر موسمی نظام میں تبدیلیوں اور بارش کے غیر معمولی پیٹرن کے ساتھ ان علاقوں میں اندھا دھند انسانی اقدامات کے کے سبب ہو رہا ہے۔‘‘ آج جوشی مٹھ کے باشندے بے گھر ہیں۔ ان کے گھروں کو زمین نگلنے میں کتنا وقت لے گی؟ کوئی نہیں جانتا۔زمین کا کھسکنا  بہرحال ایک سست عمل ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ کتنی دہائیوں سے مٹی کتنے انچ یا فٹ ڈوب رہی ہے۔ اس بارے میں کوئی مطالعہ نہیں ہے کہ وقت کے ساتھ یہ قصبہ کتنا ڈوب سکتا ہے۔اس سے بھی اہم بات یہ کہ کیا جوشی مٹھ کو بچایا جا سکتا ہے؟ 
 ایک مقامی کارکن اتُل ستی نے ایک اعلیٰ سینئر اہلکار کے حوالے سے کہا کہ’’ اگر ڈوبنے کا سلسلہ جاری رہا تو شہر میں رہنے والے ۴۰؍ فیصد لوگوں کو وہاں سے نکالنا پڑے گا۔ اگر یہ سچ ہے تو باقی شہر کو بچانا بہت مشکل ہو گا۔‘‘ یاد رہے کہ ہزاروں لوگوں کو بیک وقت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ فی الحال حکومت نے اپنے طور پر   اقدامات شروع کر دیئے ہیں لیکن کیا  یوں عارضی طور پر مقامی افراد  کیلئے چھتوں کی فراہمی کافی ہوگی، کیا اس کے ذریعے ان بے گھروں کا مسئلہ حل ہو سکے گا؟  ابھی اسکول،  اسپتال، دفاتر  اور  کالج کئی چیزیں کا سوال باقی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK