مقدمہ چلانے کی اجازت نہ دینے کے گجرات سرکارکے فیصلے سے کورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملزمین نے جو کچھ کیاوہ فرائض کی انجام دہی کے طور پر کیا، مقتولین کے دہشت گرد نہ ہونے پر بھی شبہ کا اظہار، کہا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے
EPAPER
Updated: April 01, 2021, 12:06 PM IST | Agency | Ahmedabad
مقدمہ چلانے کی اجازت نہ دینے کے گجرات سرکارکے فیصلے سے کورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملزمین نے جو کچھ کیاوہ فرائض کی انجام دہی کے طور پر کیا، مقتولین کے دہشت گرد نہ ہونے پر بھی شبہ کا اظہار، کہا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے
عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹر کیس کے آخری ۳؍ ملزمین کو بھی بدھ کواحمد آباد میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ سے ڈسچارج کردیا ۔ سی بی آئی کے اسپیشل کورٹ کے جج وی آر راول نے ملزم پولیس افسران ترون باروٹ، انجو چودھری اور گریش سنگھل کی مقدمے سے ڈسچارج کی پٹیشن کو منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ مقدمہ چلانے کیلئے ریاستی حکومت کی منظوری(نہ دینے) کے فیصلے کے تعلق سے سی بی آئی نےبطور خاص کچھ نہیں کہا ہےجس کی وجہ سے یہ یقین کیا جاسکتاہے کہ ملزمین / عرضی گزار اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ سی بی آئی نے ۲۰؍ مارچ کوعدالت کو مطلع کیاتھا کہ گجرات حکومت نے اپنے پولیس افسران کے خلاف مقدمہ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں کورٹ نے کہاتھا کہ ملزمین نے چونکہ جو کچھ کیا وہ ڈیوٹی کے دوران کیا اس لئے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کیلئے ریاستی حکومت کی اجازت ضروری ہے۔ اس کیلئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۹۷؍ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ممبئی کے ممبرا میں رہنے والی ۱۹؍ سالہ عشرت جہاں کو جاوید شیخ عرف پرنیش پلّئی، امجد علی اکبر علی رانا اور ذیشان جوہر کے ساتھ گجرات پولیس نے ۱۵؍ جون ۲۰۰۴ء کو مار دیاتھا اوراسے انکاؤنٹر بتایاتھا۔ پولیس نے یہ کہانی پیش کی تھی کہ یہ چاروں دہشت گرد تھے جو گجرات کے اس قت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو مارنے کے مشن پر تھے۔ بہرحال ہائی کورٹ کی تشکیل شدہ خصوصی تفتیشی ٹیم نے اپنی جانچ میں تصدیق کی کہ انکاؤنٹر فرضی تھی۔اسی کے بعد سی بی آئی نے اس معاملے میں مقدمہ درج کیاتھا۔ مگر جب پولیس اہلکاروں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے جو بھی کیا وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کیا اس لئے حکومت کی اجازت لینا لازمی ہے تو سی بی آئی کو حکومت سے اجازت لینے کی ہدایت دی گئی۔ حکومت نے اجازت نہیں دی جس کے بعد کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’’مرکزی اور ریاستی حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ملزمین کا عمل ان کی ڈیوٹی کا حصہ تھا،اسی لئے حکومت سے مقدمہ کی اجازت مانگی گئی مگر اس نے انکار کردیا۔ ‘‘ حیرت انگیز طورپر کورٹ نے مقتولین کے تعلق سے بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کی بنیاد پر بادی النظر میں بھی یہ تصور کرلیا جائے کہ وہ دہشت گرد نہیں تھے یا ان کے تعلق سے انٹیلی جنس کا الرٹ غلط تھا۔