Inquilab Logo

رمضان: فاقہ کشی پر مجبوراور پانی کو ترستے فلسطینیوں کا روزوں کا اہتمام

Updated: March 12, 2024, 1:51 PM IST | Inquilab News Network | Gaza

اسرائیلی جارحیت کے سبب ملبے میں تبدیل فلسطینی علاقوں میں نمازوں کا اہتمام۔ رمضان المبارک میں جنگ بندی کے مذاکرات تعطل کا شکار۔ کم مقدار میں دستیاب غذائی اشیاء بیشتر فلسطینیوں کی دسترس سے باہر۔ اسرائیلی پابندی کے سبب ۲۰؍ بچوں نے پیاس سےدم توڑ دیا۔

Praying in a Palestinian camp. Image: X
فلسطینی کیمپ میں نماز ادا کرتے ہوئے۔ تصویر: ایکس

گزشتہ ۱۵۷؍ دن سے جاری جنگ کے سائے میں فلسطینیوں نے رمضان المبارک کے روزوں کا آغاز کیا۔ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی جارحیت برقرار ہے جبکہ عالمی برادری جنگ بندی کروانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ جنگ بندی کے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور، غزہ میں بھکمری بڑھ رہی ہے اور پانچ ماہ سے جاری جنگ کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ 
اتوار کو دیر رات گئے منہدم عمارتوں کے درمیان ملبے کے باہر نماز ادا کی گئی۔ کچھ لوگوں نے پُرہجوم خیموں کے کیمپوں میں رنگ برنگی روشنیاں اور آرائش کے سامان سجائے ہوئے تھے، اور اقوام متحدہ کے اسکول سے پناہ گاہ کے ایک ویڈیو میں بچوں کو خوشی سے کھیلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس وقت ایک فلسطینی لاؤڈ اسپیکر پرآمدِ رمضان کا نغمہ گا رہا تھا۔ 
لیکن پانچ ماہ کی جنگ جس میں ۳۰؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق اور غزہ کے بیشتر حصے کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ہیں، اس کے بعد جشن کے موقعوں کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اہل خانہ عام طور پر تقریب کے ساتھ روزانہ کا روزہ افطار کرتے ہیں لیکن جہاں ڈبہ بند سامان سے زیادہ کچھ کھانا دستیاب نہ ہو، اور وہ بھی بیشتر کیلئے قوت خرید سے باہر ہو۔ 
وہاں موجود صباح الہندی نے کہا کہ ’’آپ کسی کی آنکھ میں حقیقی خوشی نہیں دیکھ سکتے۔ ‘‘ صباح اتوار کو رفح کے جنوبی شہر میں کھانے کی خریداری کر رہے تھے۔ ’’ہر خاندان غمزدہ ہے، ہر خاندان میں ایک شہید ہے۔ ‘‘ 
امریکہ، قطر اور مصر نے فجر سے شام تک روزوں والےخوشگوار مہینے سے پہلے جنگ بندی کی ثالثی کی امید ظاہر کی تھی جس میں درجنوں اسرائیلی یرغمالوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور بڑی مقدار میں انسانی امداد کی فراہمی شامل تھی لیکن بات چیت گزشتہ ہفتےتعطل کا شکار ہو گئی۔ 

حماس کا مطالبہ مکمل جنگ بندی کی ضمانت کا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے فلسطینی مزاحمتی گروپ کے خلاف ’’مکمل فتح‘‘ اور باقی تمام مغویوں کی رہائی تک جارحیت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ 
جنگ نے غزہ کی۲۳؍ لاکھ آبادی کے ۸۰؍ فیصد لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں لوگوں کو قحط کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ شمالی غزہ میں کم از کم۲۰؍ افراد، جن میں زیادہ تر بچے ہیں، غذائی قلت اور پانی کی کمی سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ 
اسرائیلی فوج نے اکتوبر سے بڑے پیمانے پر شمالی حصے کومحصور کر رکھا ہے، اور امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں اور امن و امان کی خراب صورت حال نے زیادہ تر علاقے میں اشد ضروری خوراک کو محفوظ طریقے سے پہنچانا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ 
امریکہ اور دیگر ممالک نے حالیہ دنوں میں فضائی امداد کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن انسانی ہمدردی کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ایسی کوششیں مہنگی اور ناکافی ہیں۔ امریکی فوج نے امداد پہنچانے کیلئے ایک سمندری پل بنانے کیلئے سامان کی نقل و حمل بھی شروع کر دی ہے، لیکن ممکنہ طور پر اس کے قابل استعمال ہونے میں کئی ہفتے لگ جائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK