ملک بھر میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں اور روہنگیا باشندوں کی شناخت کیلئے وزارت داخلہ کی جانب سے ۲؍ مئی کو جاری کئے گئے حکم کےبعدپکڑ دھکڑ میں اضافہ، مزدور بنگال منتقل ہونے پر مجبور
EPAPER
Updated: August 21, 2025, 1:42 PM IST | New Delhi
ملک بھر میں غیر قانونی بنگلہ دیشیوں اور روہنگیا باشندوں کی شناخت کیلئے وزارت داخلہ کی جانب سے ۲؍ مئی کو جاری کئے گئے حکم کےبعدپکڑ دھکڑ میں اضافہ، مزدور بنگال منتقل ہونے پر مجبور
۲؍ مئی کو مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے انتہائی خاموشی سے جاری کئے گئے ایک حکم نے ملک بھر میں اُن لوگوں کیلئے مشکلیں کھڑی کردی ہیں جو بنگالی زبان بولتے ہیں اور اتفاق سے مسلمان بھی ہیں۔گروگرام اور دہلی این سی آر میں سرچ آپریشن کے نام پر اُن لوگوں کو بھی حراست میں لے کر ’ہولڈنگ سینٹرس‘‘ میں منتقل کردیاگیا جن کے پاس ہندوستانی ہونے کے سارے دستاویز موجود تھے۔معروف ہندی اخبار ’دینک بھاسکر‘ کے نمائندوں نے دہلی اور گروگرام میں زمین پر پہنچ جو رپورٹ دی ہے وہ چونکا دینے والی ہے۔
نور عالم جو کچھ دن پہلے تک گروگرام کے سیکٹر ۳۷؍ میں رہتے تھے، نے بتایا کہ ’’میں رات ساڑھے ۱۰؍بجے ڈیوٹی سے لوٹا تھا۔ کھانا کھا رہا تھا کہ اچانک پولیس آئی اور مجھ سے شناختی ثبوت مانگے۔ میں نے آدھار کارڈ دکھا دیا، اس کے باوجود مجھے گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔ پوری رات پولیس اسٹیشن میں رکھا۔ پھر سیکٹر۱۰؍ کے ہولڈنگ سینٹر منتقل کردیا۔ وہاں پہلے ہی ۱۵۰؍ سے زیادہ لوگ موجود تھے۔‘‘ ان کے مطابق ’’میرا گھر مغربی بنگال کے مالدہ ضلع میں ہے۔ وہاں کے چانچل تھانے کی پولیس نے میرے گاؤں جا کر تصدیق کی۔ اس کے بعد۲۳؍ جولائی کو مجھے چھوڑا گیا۔ میں ۶؍ دن تک سینٹر میں(زیر حراست) رہا۔‘‘
نور عالم ایک کمپنی میں ڈلیوری ایجنٹ کا کام کرتے تھے مگر اس ہراسانی ے بعد سب کچھ بدل گیا اور وہ گروگرام چھوڑکر مالدہ لوٹ گئے ہیں۔ دہلی میں رہ کر مزدوری کرنے والے مغربی بنگال کے شہری بڑی تعداد میں اپنے آبائی وطن لوٹ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی تو۲۵؍ سال سے گروگرام میں رہ رہے تھے۔ یہ صورتحال صرف گروگرام کی نہیں ہے بلکہ دہلی-این سی آر کے مختلف علاقوں میں یہی ہو رہا ہے۔نور نے بتایا کہ ’’مجھے گروگرام آئے ایک سال ہوا تھا۔ پولیس بار بار آ رہی تھی۔ پریشانی بڑھنے لگی تو میں واپس مالدہ آ گیا۔ گڑگاؤں میں۱۵؍ سے۲۰؍ہزار روپے ماہانہ کما لیتا تھا۔ اب جب تک یہ معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تب تک واپس نہیں جاؤں گا۔ یہیں کھیتی کروں گا۔‘‘
مغربی بنگال کے نادیہ ضلع کے رہنے والے اظہر بھی کام کی تلاش میں۱۵؍دن پہلے ہی گروگرام منتقل ہوئے تھے مگر جب یہ دیکھا کہ پولیس آئے دن مغربی بنگال کے لوگوں کے دستاویز دیکھ رہی ہے اور بہت سے لوگ واپس جا رہے ہیں تو انہوں نے بھی لوٹ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ گروگرام کے سیکٹر۵۳؍ کے سرسوتی کنج علاقے میں بنگالی مزدوروں کی بستیاں ہیں۔ یہیں اظہر اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔
اظہر نے بتایا کہ ’’ہمارے پاس سارے ڈاکیومنٹس ہیں۔ آدھار کارڈ، ووٹر کارڈ، راشن کارڈ سب کچھ ہے۔ پھر ہمیں کیوں مارتے ہیں؟ ڈاکیومنٹس دکھانے کے باوجود پیٹتے ہیں۔ ہم بنگلہ دیشی نہیں ہیں۔ پھر بھی جب ان (پولیس والوں ) کا جی چاہتا ہےجھگی میں گھس آتے ہیں۔‘‘
سرسوتی کنج کا دورہ کرنےوالے اخباری نمائندہ نے بتایا کہ ’’ہم پہنچے یہاں لوگ ایک بس میں اپنا سامان رکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ اسکوٹی اور موٹر سائیکل بھی بس پر لادی جارہی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ بس کولکاتا جا رہی ہے۔ اس میں زیادہ تر آس پاس کی بستیوں کے لوگ جانے والے ہیں۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ چند دن پہلے تک روزانہ ۲-۲؍ بسیں جا رہی تھیں۔‘‘
اظہر بھی اسی بس سے واپس مغربی بنگال جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نےبتایا کہ ’’کیا کروں، یہاں رہوں گا تو باہر نکلنا پڑے گا۔ پھر مجھے پکڑ کر مارا جائے گا۔ یہاں بھوکا تو رہ نہیں سکتا، بیوی بچے بھی ہیں، انہیں کون کھلائے گا؟ ہمارے گاؤں کے کئی لوگ جا چکے ہیں ، میں بھی اسی لئے جارہا ہوں۔‘‘ اپنے ہی ملک میں غیر ملکی ہونے کے شبہ کا سامنا کرنے والے اظہر نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ میرے پاس سارے کاغذات ہیں۔ اگر میں بنگلہ دیشی ہوں، تو یہ دستاویز کیسے ہیں؟ میرے پاس زمین کے کاغذ کیسے آگئے؟‘‘
سرسوتی کنج میں مقامی افراد نےبتایا کہ یہاں بنگالی مزدوروں کے قریب۲۰۰؍گھر ہیں مگر ان میں سے اب صرف ۲۰؍گھر آباد ہیں۔ باقی سب پچھلے۱۵؍دنوں میں مغربی بنگال واپس جا چکے ہیں۔رینا بی بی سرسوتی کنج کی دوسری بستی میں۱۵؍ سال سے رہ رہی ہیں۔ آس پاس کی سوسائٹیوں میں کھانا بنانے کا کام کرتی ہیں۔۲۰؍دن پہلے پولیس نے ان کی خالہ کے بیٹے کو پکڑ لیا تھا۔ رینا نے بتایا کہ ’’پولیس اس کا فون چیک کر رہی تھی۔ پھر خالہ تھانے گئیں، وہاں ڈاکیومنٹس دکھائے اور اسے واپس لے آئیں۔ پولیس نے چھوڑتے ہوئے کہا کہ یہ یہاں نظر نہیں آنا چاہئے، اسے گاؤں بھیج دو۔ پولیس کے ڈر سے وہ واپس چلا گیا۔ پولیس نے خالہ سے بھی کہا کہ تم بنگلہ دیشی لگتی ہو۔‘‘رینا، جو مرشدآباد کی رہنے والی ہیں، کہتی ہیں کہ’’میرے دونوں بھائی اپنے خاندان کے ساتھ واپس گھر جا چکے ہیں۔ بنگال میں اپناگھر بار چھوڑ کر روزگار کیلئے یہاں آئے تھے۔ صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں میرے شوہر سکندرپور میں نیا آٹو خریدنے گئے تھے۔ شوروم پر کہا گیا کہ بنگالی لوگوں کو نہیں دیں گے۔ انہوں نے شناختی کاغذات دکھائے، اس کے باوجود نہیں دیا گیا۔‘‘
گروگرام کے سمس پور گاؤں میں رہنےوالے مکل حسن شیخ بتاتے ہیں کہ ’’۲۵؍ سال سے گروگرام میں رہ رہے ہیں مگر اب پولیس کبھی بھی اٹھا لیتی ہے۔‘‘مکل حسن شیخ جو کباڑ کا کام کرتے ہیں ، مزید بتایا کہ ’’پولیس کے اچانک کسی کو بھی اٹھا لینے کی وجہ سے گھر کے لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ سمس پور میں رہنےوالے ۹۰؍ فیصد مزدور بنگال لوٹ چکے ہیں۔ صرف وہی بچے ہیں، جن کے پیسے پھنسے ہوئے یا جن کا کوئی کاروبار ہے۔‘‘