Inquilab Logo

اٹلی:تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے ۶۲؍افراد کی موت

Updated: February 28, 2023, 12:43 PM IST | Rome

اس کمزور اور خستہ حال کشتی پر گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے ، اٹلی کے کلابریا میں کشتی تیز لہروں کے درمیان چٹان سے ٹکرا کر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی نتیجتاً کشتی پر سوارتمام افراد ڈوب گئے، ۸۰؍ سے زائد افراد کو بچایا گیا ۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک نومولود کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچے بھی شامل ہیں

Rescue workers are active on the coast of Italy. (AP/PTI)
اٹلی کے ساحل پر امدادی کارکن سرگرم نظر آرہے ہیں۔ ( اےپی / پی ٹی آئی)

 اٹلی  میںروزگار کیلئے بیرون ملک جانے کی کوشش کے دوران تارکین وطن کی کشتی سمندر میں چٹان سے ٹکراکر پلٹ گئی  جس کے نتیجے میں  ۶۲ ؍   افراد کی موت ہوگئی ۔ تارکین وطن کا تعلق پاکستان،  ایران اور افغانستان سے بتایاجاتا ہے ۔ مرنے والوں میں  خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ اقوام متحدہ نے اس پر افسوس کا اظہار کیا   اور عالمی برادری سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی اپیل کی ۔  میڈیا رپورٹس کے مطابق کشتی  پر گنجائش سے زیادہ ۲؍سو سے زائد افراد سوار تھے ۔ اٹلی کے کلابریا میں کشتی   تیز لہروں کے درمیان چٹان سے ٹکرا گئی اور  دوحصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ اس کے نتیجے میں کشتی پر سوار افراد ڈوب گئے۔  پیر کو  اطالوی کوسٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ ۶۲؍ لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ ۸۰؍ سے زائد افراد کو    زندہ بچالیا گیا جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو خود تیر کر ساحل پر پہنچے۔ 
  اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نیز پناہ گزینوں اور تارکین وطن کیلئے کام کرنے والے اداروں نے اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے سے  ۶۲؍افراد کی ہلاکت کے بعد محفوظ راستوں اور امدادی کارروائیوں میں بہتری لانے کا مطالبہ کیا ۔  اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو غطریس نے اس کشتی حادثے پر افسوس کا اظہار کیا۔  انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا ، ’’ `بہتر زندگی کی تلاش میں ہر فرد تحفظ اور وقار کامستحق  ہے۔ ہمیں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کیلئے محفوظ اور قانونی راستے کی ضرورت ہے۔‘‘
 اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) اور عالمی ادارہ برائے  ترک وطن (آئی او ایم) نے ایک مشترکہ بیان میں متاثرین کیلئے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ  ممالک سے کہا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو موثر طور سے پوری کرنے کیلئے وسائل اور صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔  دونوں اداروں کے مطابق  تلاش اور بچاؤ کا کام کرنے والی ٹیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ہلاک ہونے والوں میں ایک نومولود کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔
  اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے ادارے کا کہنا ہے کہ موصولہ اطلاعات کے مطابق اس حادثے میں بچ جانے والوں کی تعداد ۸۰ ؍تک ہوسکتی ہے۔ ان میں بعض افراد کو علاج کیلئے اسپتالوں میں داخل کرا دیا گیا ہے۔
 اٹلی، ویٹی کن اور سان مرنیو کیلئے یو این ایچ سی آر کی نمائندہ کیارا کارڈولیٹی کا کہنا تھا،’’ `ایسے ہولناک سانحات ناقابل قبول ہیں جن میں خاندانوں اور بچوں کو ایسی کشتیوں میں سوار کرا دیا جاتا ہے جو سمندری سفر کے قابل نہیں ہوتیں۔ اس المیے سے سبق لیتے ہوئے ہمیں فوری طور پر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔‘‘
 ترکی سے روانہ ہونے والی اس کشتی میں افغانستان اور پاکستان اور ایران کے ساتھ دیگر  ممالک کےشہری سوار تھے۔
  یو این ایچ سی آر کے مطابق ۲۰۲۲ء میں سمندر کے راستے اٹلی آنے والوں میں ترکی سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد تقریباً ۱۵ ؍فیصد تھی۔ اس راستے پر آنے والے تقریباً نصف ا فراد ایسے ہیں جو افغانستان سے بھاگ کر آ رہے ہیں۔
  دریں اثنا ءاتوار کو  اقوام متحدہ اور یورپی کمیشن کے چیف نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تنازعات اور غربت کے شکار ممالک سے نقل مکانی کرنے والے افرا د کو پناہ دیں ۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے تارکین وطن فلیپو گرانڈی نے اس المناک  سانحہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ  متعلقہ ممالک اب  بہانے  نہ کریں  ، ٹال مٹول سے کام نہ لیں بلکہ اس طرح کے سانحات کو روکنے کیلئے مشترکہ جدوجہد کی جائے ۔
  اسی دوران  یورپی کمیشن کے صدر ارسیلا ون دیر لیان نے یورپی یونین کی جانب سے تارکین وطن کیلئے  سیاسی پناہ کے قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ،’’ ہم پر دہری ذمہ داری ہے۔ ہمیں تارکین وطن اور سیاسی پناہ سے متعلق  اقدامات میں اضافہ کرنا ہو گا۔ ‘‘ 
 ادھراٹلی میں دائیں بازو کی سخت گیر وزیراعظم جیورجیا میلونی نے کہا  کہ ان کی حکومت تارکین وطن کی کشتیوں کو روکنے کیلئے پرعزم ہے تاکہ اس طرح کے سانحات سے بچا جاسکے۔ اطالوی صدر سرجیو ماتاریلا کا کہنا تھا کہ افغانستان اور ایران سے بڑی تعداد میں تارکین وطن آرہے ہیں جنہیں انتہائی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا  ہے ۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ نقل مکانی کا  سبب بننے والی جنگوں ، ظلم وستم ،دہشت گردی اور غربت کے خاتمے کیلئے  کردار ادا کرے۔ اطالوی حکومت نے یورپی یونین کے اتحادیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں  تارکین وطن کو تسلیم نہیں کررہے ہیں ۔ میلونی کی سخت گیر حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک متنازع قانون  منظور کیا ہے جس کے تحت تارکین وطن کی امداد سے متعلق جہازوں کو کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔   ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے اور امدادی جہازوں کی تعداد کو کم کرنے سے وسطی بحیرہ روم میں اس طرح کے مزید سانحات جنم لیں گے ۔
 ادھرپاکستان کےو زیر اعظم شہباز شریف نے  اس سانحہ  میں ۲؍ درجن سے زائد پاکستانی شہریوں کی موت پر  افسوس کا اظہار کیا ۔ دریں اثناءپاکستانی میڈیا نے  ذرائع حوالے سے بتایاکہ سانحہ میں  مرنے والے پاکستانیوں کا تعلق گجرات، کھاریاں اورمنڈی بہائوالدین سے  ہے۔ 

italy rome Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK