Inquilab Logo

میانمارمیں مظاہرین کے قتل کیساتھ لوٹ مار بھی جاری

Updated: April 10, 2021, 2:45 PM IST | Agency | Yangon

ایک ہی دن میں پولیس کی گولیوں سے ۱۱؍ افراد ہلاک،اشیائے خوردونوش کی قلت، عوام نے شکایت کی کہ فوجی اہلکار گاڑیاں روک کر نقدی اور دیگر اشیا لوٹ رہے ہیں

The situation in Myanmar is getting worse and worse.Picture:Agency
میانمار کے حالات بد سے بد تر ہوتے جا ہے ہیں.تصویر: ایجنسی

  میانمار میں فوج کے ہاتھوں  آنگ سان سوچی کے تختہ پلٹ کو ۶۵؍ دن  سے زائد ہو چکے ہیں  اور یہاں حالات معمول پر آنےکے بجائے مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔   حالانکہ عوام اب بھی سڑکوں پر اتر کر فوج کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور پولیس انہیں طاقت کے دم پر قابو میں کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اب شکایت مل رہی ہے  فوجی اہلکار آتے جاتے لوگوں کو لوٹ بھی رہے ہیں۔ 
   ایک ہی دن میں ۱۱؍ افراد کا قتل
  جمعرات کو میانمار میں فوج کے خلاف احتجاج کرنے والے ۱۱؍ افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ حالانکہ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ تمام ۱۱؍ لوگ ایک ہی جگہ پر مارے گئے ہیں یا الگ الگ شہروں میں کیونکہ احتجاج ملک کے ہر شہر میں ہو رہا ہے اور پولیس ہر جگہ بے دریغ مظاہرین پر فائرنگ کر رہی ہے۔  ویسے رنگون، منڈالے اور نیوپیڈ میں احتجاج کا اثر زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔  رنگون میں لوگوں نے شکایت کی ہے کہ پولیس جبراً گھروں میں گھس کر لوگوںکو گرفتار کر رہی ہے۔
 فوجی اہلکاروں پر لوٹ مار کا الزام 
 میانمار کے عوام کا الزام ہے کہ فوجی اہلکار اب ان کے ساتھ لوٹ مار بھی کرنے لگے ہیں۔  وہ راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے  ان کی گاڑی روک لیتے ہیں اور ان سے نقدی یا پھر قیمتی سامان چھین لیتے ہیں۔ ’فری ایشیا ‘نامی ریڈیو سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق  میانمار کے شہر  کیاک پیڈانگ میں  ایک شہری نے بتایا کہ فوج نے ان کی گاڑی کو روکا اور ان کے ڈیش بورڈ پر رکھے ہوئے پرس سے ۵؍ لاکھ کی رقم نکال لی۔  اسی طرح کی شکایت ایک خاتون نے بھی کی ہے کہ فوجی اہلکاروں نے اس کے پاس سے رقم چھین لی۔ یہ فوجہ جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہیں اور کار وں یا ٹرکوں میں رکھے سامان کو ضبط کر لیتے ہیں۔  
 اشیائے خوردونوش کی قلت
 کہا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے ضروری اشیا سے بھرے ٹرک شہروں میں داخل نہیں ہو پا رہے ہیں اور  ان علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی قلت ہوتی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سپر مارکیٹ او ر شاپنگ مال تو کھلے ہوئے ہیں لیکن  چھوٹی دکانیں بند ہیں۔ خاص کر گوشت اور سبزیوں اورکھانے پکانےکی دیگر چیزیں دستیاب نہیں ہیں۔ چاول کا کاروبار کرنے والے  ایک تاجر نے بتایا کہ فوج کی زورزبردستی کی وجہ سے ہول سیل مارکیٹ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کی تعداد بھی  صرف ایک تہائی رہ گئی ہے۔ ایسی صورت میں اشیائے خوردونوش کی قلت فطری بات ہے۔
ایمرجنسی کی مدت میں توسیع
  ’الجزیرہ‘  کی ایک رپورٹ کے مطابق میانمار فوج اپنے اعلان کے مطابق ایک سال بعد بھی ملک میں الیکشن کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے ۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ دنوں صحافیوں کا ایک گروہ میانمار کے دورے پر گیا تھا جہاں انہوں نے فوج کے ترجمان زامن تن سے بات کی۔  ایمرجنسی کی مدت کے تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں زامن تن نے کہا کہ ’’ ہم کوشش کریں گے کہ ایک سال کے عرصے میں ملک کے حالات ہمارے قابو میں آجائیں لیکن اگر ایسا نہیں ہو سکا تو ہم  ایمر جنسی کے مدت میں ۶؍ ماہ کی توسیع کر دیں گے۔ اس کے بعد بھی کامیابی نہیں ملی تو  اس میں مزید ۶؍ ماہ کی توسیع کی جائے گی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ قانون کے مطابق ملک میں ۲؍ سال سے زیادہ عرصے تک ایمرجنسی نہیں نافذ کی جاسکتی ، اس لئے ۲؍ سال بعد اگر حالات قابو میں نہیں آئے تو وہ عالمی طاقتوں سے کہے گی کہ وہ اس معاملے کی نگرانی کریں۔  اس سارے پس منظر  میں بھی عوام کو احتجاج جاری ہے۔ لوگ اب بھی سڑکوں پر  اتر کر فوجی حکومت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ خاص کر رنگون اور منڈالے جیسے بڑےشہروں کے نواح میں لوگ بے خوف احتجاج کر رہے ہیں۔ حالانکہ پولیس کی گولی باری اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔  پولیس گھروں میں گھس کر لوگوں کو گرفتار کر رہی  ہے۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK