Inquilab Logo

شام کی ۱۰؍ سالہ خانہ جنگی میں لاکھوں افراد لقمۂ اجل بن گئے،اقوام متحدہ کی رپورٹ

Updated: June 30, 2022, 12:46 PM IST | Agency | Damascus /New York

رپورٹ کے مطابقیکم مارچ ۲۰۱۱ء سے۳۱؍ مارچ۲۰۲۱ء کے درمیان ۳؍لاکھ ۶؍ ہزار ۸۸۷؍ عام شہری مارے گئے، اسکا مطلب یہ ہے کہ روزانہ ۸۳؍ افراد ہلا ک ہوئے

The devastation of the civil war in Homs is being captured on camera..Picture:INN
حمص میں خانہ جنگی کی تباہی کو کیمرے میں قید کیا جارہا ہے ۔ تصویر:  اےپی /پی ٹی آئی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق ۱۰؍سالہ شامی خانہ جنگی میں لاکھوں عام شہری مارے جا چکے ہیں۔۱۰؍ برس میں یومیہ ۸۰؍ سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔  واضح رہےکہ شام میں تشدد کا سلسلہ مارچ۲۰۱۱ء میں صدر بشارالاسد حکومت کیخلاف پرامن احتجاج سے شروع ہوا۔ جلد ہی یہ  مظاہرے ملک کے مختلف حصوں  میں پھیل گئے اور اس نے کثیر رخی نوعیت اختیار کرلیا۔ بعد میں عالمی طاقتیں بھی اس میں  شامل ہوگئیں۔تصادم نے جلد ہی خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی جس میں لاکھوں افراد مارے گئے اور بڑے پیمانے پر تباہی اور  خونریزی ہوئی۔ جانی اور مالی نقصان ہوا ۔   اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے۸؍ مختلف ذرائع کی مدد سے تیار کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں بتایاکہ شام میں جاری تنازع میں یکم مارچ ۲۰۱۱ء سے۳۱؍ مارچ۲۰۲۱ء کے درمیان  ۳؍لاکھ ۶؍ ہزار ۸۸۷؍شہری مارے گئے جبکہ ایک کیمپ میں سوسے زائد قیدی ہلاک ہو گئے۔اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے دفتر نے جنیوا میں منگل کو یہ رپورٹ جاری کی۔ اس میں  مرنے والوں کی تعداد سابقہ اعدادوشمار کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق تشدد زدہ شام میں گزشتہ۱۰؍ برس کے دوران ہر روز کم از کم۸۳؍  شہری ہلا ک ہوئے ہیں۔  ہلاک ہونے والوں کی یہ مجموعی تعداد تصادم شروع ہونے سے قبل کی شامی آبادی کے۱ء۵؍ فیصد کے برابر ہے۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کمشنر میشیل بیچلیٹ نے کہا کہ  مرنے والوں تعداد سے متعلق یہ رپورٹ اعدادو شمارکے تجزیہ اور ٹھوس جائزے  کے بعد تیار کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا،’’اس رپورٹ میں تصادم سے متعلق  مرنے والوں کے اعدادو شمار محض ایک تعداد نہیں ہے بلکہ ایک ایک فرد کی نمائندگی  ہے۔ ۳؍لاکھ ۶؍ ہزار ۸۸۷؍شہریوں میں سے ہر ایک کی ہلاکت کا ان کے خاندان اور برادری پر انتہائی گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔‘‘اقوام متحدہ کی طرف سے جاری اس رپورٹ میں تصادم کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں یاعسکریت پسندوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ اس رپورٹ میں ایسے افراد کے ہلاکتوں کی تعداد بھی شامل نہیں ہے جو مارے گئے اور ان کے گھر والوں نے حکام کو مطلع کئے بغیر ہی ان کی تدفین کردی۔ یہ رپورٹ۸؍مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہےجن میں دمشق مرکز برائے مطالعات حقوق انسانی، سینٹر فار اسٹیٹسٹکس اینڈ ریسرچ برائے سیریا، شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق، سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس اور وائلیشن ڈاکیومینٹیشن سینٹر شامل ہیں۔
 رپورٹ میں ایک لاکھ ۴۳؍ ہزار ۳۵۰؍ شہریوں کی ہلاکتوں کی انفرادی طورپر تفصیل دی گئی  ہے۔ اس میں ان کے مکمل نام، ہلاکت کی تاریخ اور مقام بھی درج ہیں۔ اقوام متحدہ نے منگل  ہی کو  ایک ا ور رپورٹ میں کہا کہ شام میں ایک کیمپ میں گزشتہ ۱۸؍ماہ کے دوران۱۰۰؍سے زائد افراد ہلاک ہوگئےجن میں خواتین بھی شامل تھیں۔کردوں کے کنٹرول والے شمالی مشرقی علاقے الہول میں ایک عارضی حراستی کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں اب بھی۵۶؍ ہزار افراد قید ہیں جن میں سے بیشتر شامی اورعراقی شہری ہیں اور ان میں سے بعض کا تعلق داعش سے ہے۔شام میں اقوام متحدہ کے رابطہ کارعمران رضا کا کہنا تھا کہ الہول کیمپ انتہائی غیر محفوظ ہے۔ `یہ انتہائی تکلیف دہ جگہ ہے اورغیرمحفوظ مقام بن گیا ہے۔

syria Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK