Inquilab Logo

کشن گنج میں کانگریس کےامیدوار محمدجاوید کیلئےکوئی خطرہ نہیں،جے ڈی یوکی امیدیں ایم آئی ایم سے وابستہ

Updated: May 09, 2024, 8:51 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

یہاں دوسر ے مرحلے میں ووٹ ڈالے گئے تھے جہاں پولنگ کی شرح ۶۴؍ فیصد سے زیادہ درج کی گئی تھی، ہرجگہ کم، مگر یہاں زیادہ ووٹنگ سے بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں پریشان

Congress candidate from Kishanganj Muhammad Javed
کشن گنج سے کانگریس امیدوار محمد جاوید

کشن گنج لوک سبھا سیٹ پر صرف بہار  ہی کی نہیں بلکہ پورے ملک کی نظر رہتی ہے۔ اس کا شمار ’وی آئی پی‘ سیٹوں میں ہوتا  ہے۔ ایم جے اکبر، سید شہاب الدین،تسلیم الدین،  شاہنواز حسین اور مولانا اسرارالحق قاسمی جیسے لوگ یہاں کی نمائندگی لوک سبھا میںکرچکے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں کانگریس کے امیدوار محمد جاوید کو کامیابی ملی تھی۔  کانگریس نے ایک بار پھر انہیں پر اپنے اعتماد کااظہار کیا ہے۔ بی جےپی کی اتحادی جماعت جنتادل متحدہ(جے ڈی یو) نے اپنا امیدوار تبدیل کیا ہےالبتہ ایم آئی ایم نے  اپنے ریاستی سربراہ اخترالایمان ہی کو ایک بار پھرمیدان کو اُتارا ہے۔  
 انتخابی مساوات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس باربھی کانگریس کے امیدوار محمد جاوید کیلئے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔ انہیں آر جے ڈی، سی پی ایم اور ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل دیگر جماعتوںکی حمایت حاصل ہے۔ یہاں پر ایم آئی ایم نے کافی محنت کی ہے۔ مجلس کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بذات خود کافی کوشش کی ہے ،اس کے باوجود ’انڈیا‘ اتحاد کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔۶۵؍ فیصد سےزائد مسلم آبادی والے اس انتخابی حلقے میں گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کے امیدوار محمد جاوید کو ۳۳ء۳۲؍  فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ جے ڈی یو کے سیدمحمود اشرف اور ایم آئی ایم کے اخترالایمان نے  بالترتیب ۳۰ء۱۹؍ اور۲۶ء۷۸؍ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس کے بعد  ۲۰۲۰ء میں ہونےوالے اسمبلی انتخابات میں اس  لوک سبھا حلقے کے تحت آنےوالے اسمبلی حلقوں میں ایم آئی ایم کی کارکردگی کافی بہتر رہی تھی۔۶؍ اسمبلی حلقوں میں کانگریس اور آرجے ڈی کو صرف ایک ایک سیٹ ہی مل سکی تھی جبکہ ایم آئی ایم کو ۴؍ سیٹیں ملی تھیں،لیکن بعد میں ’آمور‘ سیٹ سے منتخب ہونے والے اخترالایمان کو چھوڑ کر ایم آئی ایم کے  دیگر تین ایم ایل ایز محمد انظر نعیمی، محمد اظہرآصفی اور سید رُکن الدین احمد نے اپنے کارکنان کے ساتھ آر جے ڈی کا دامن تھام لیا تھا۔ اس کی وجہ سے اس مرتبہ خطے میں ایم آئی ایم کی پوزیشن قدرے نازک ہے۔ جہاں تک جے ڈی یو کی بات ہے، اس کے کارکنان کو اس مرتبہ نتیش کمار کی ریلیوں کے تئیں عوام کی عدم دلچسپی ہی سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں پر اُن کی دال گلنے والی نہیں ہے۔ فی الحال جے ڈی یو کی ساری امیدیں ایم آئی ایم کی کارکردگی سے وابستہ ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اگر ایم آئی ایم زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو بی جے پی کے حامی ووٹوں کی مدد سے اس کی کامیابی کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ 
 سیمانچل خطے میں واقع کشن گنج لوک سبھا سیٹ پر پولنگ دوسرے مرحلے میں ہوچکی ہے جہاں ۶۴؍ فیصد پولنگ درج کی گئی ہے۔  ۲۰۱۹ء کے مقابلے ۲؍ فیصد کم پولنگ ہوئی ہے لیکن بہار کی دوسری سیٹوں کے مقابلے کشن گنج میں زیادہ پولنگ ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے ملک میں پولنگ کم ہونے کی وجہ سے بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں حواس باختہ  ہیں جبکہ کشن گنج میں زیادہ ووٹنگ کی وجہ سے وہ پریشان دکھائی دے رہی  ہیں۔ انتخابی نتائج تو بہرحال ۴؍ جون کو ظاہر ہوں گے لیکن حلقے کے رائے دہندگان کے مزاج سے واقف جماعتوں کی نیند حرام ہے۔   

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK