۲۱؍ اکتوبر کو لند ن سے پاکستان لوٹنے کی امید ، سابق وزیراعظم کی شاندار استقبالیہ تقریب کی میزبانی میں مسلم لیگ کو چیلنجز کا سامنا ۔ سوشل میڈیا صارفین کے بھی طنز اور تبصرے
EPAPER
Updated: September 19, 2023, 10:12 AM IST | islamabad
۲۱؍ اکتوبر کو لند ن سے پاکستان لوٹنے کی امید ، سابق وزیراعظم کی شاندار استقبالیہ تقریب کی میزبانی میں مسلم لیگ کو چیلنجز کا سامنا ۔ سوشل میڈیا صارفین کے بھی طنز اور تبصرے
پاکستان میں نواز شریف کے استقبال کی تیاری کی جارہی ہے جس کا مقصد نون لیگ کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے سابق وزیر اعظم ۲۱؍ اکتوبر کو لند ن سے پاکستان لوٹیں گے۔ اس دوران پی ٹی آئی حامی نواز شریف پر طنز کر رہے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا پر بھی طنز اور تبصرے ہورہےہیں۔ میڈیارپورٹس کے مطابق نواز شریف کے استقبال کی تقریب کو کامیاب بنانے کیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے یوتھ کوآرڈینیٹرز کا ایک مشاورتی اجلاس گزشتہ اتوار کو پارٹی کی نائب صدر اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف اور سابق وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی صدارت میں ہوا۔
اجلاس میں دعویٰ کیا گیا کہ نواز شریف کی شاندار استقبالیہ تقریب کی میزبانی میں مسلم لیگ (ن) کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ مذکورہ اجلاس ان سرگرمیوں کا حصہ تھا جن کے تحت مسلم لیگ (ن) ۲۱؍ اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی پر ان کے پرتپاک استقبال کی تیاری کر رہی ہے۔ یادرہےکہ بدعنوانی کے الزام میں ۷؍ سال قید کی سزا سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد نواز شریف۱۹؍ نومبر۲۰۱۹ء کو علاج کے لئے لندن گئے تھے۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہےکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور مریم نوا زشریف کے درمیان اختلافات جیسے مسائل کا سامنا کرنے کے درمیان سابق وزیراعظم کے شاندار استقبال کیلئے کم از کم۱۰؍ لاکھ افراد کو جمع کرنا ایک بڑا امتحان ہوگا۔ اعلیٰ قیادت پارٹی میں اختلاف کی وجہ سے بڑے شریف (نواز شریف) کی وطن واپسی کے بارے میں ابھی تک کوئی وضاحت نہیں کررہی ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اس وقت پارٹی کے اہم لیڈر شہباز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ آصف اور اعظم نذیر تارڑ وغیرہ لندن میں نواز شریف سے قانونی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مریم نواز پارٹی کی مقامی قیادت سے ملاقات کا ایک دور مکمل کرنے کے بعد لندن جائیں گی۔ پارٹی کیڈر کو منظم کرنے کے لئے مریم نے افراد مقرر کئے ہیں اور ضلعی سطح پر رابطہ کمیٹیاں تشکیل دی ہیںجن میں سابق ایم این اے، ایم پی اے، ٹکٹ ہولڈرز اور دیگر نامور افراد شامل ہیں۔ براہ راست صرف مریم نوا زشریف کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ یہ کمیٹیاں نوا ز شریف کا استقبالیہ ختم ہونے کے فوراً بعد تحلیل ہو جائیں گی۔ ہر رکن اسمبلی، ٹکٹ ہولڈر اور پارٹی عہدیدار کے استقبال کیلئےحامیوں کو لانے کا کم از کم ہدف طے کیا جا رہا ہے۔
ادھر پی ٹی آئی کے حامی ایڈوکیٹ اے بھٹی نے ایکس پر لکھا ، ’’بھگوڑا آئے گا ہی نہیں، وہ صرف باتیں کر کے پٹواریوں کو خوش کرتا رہتا ہے۔ کتنا شرم کا مقام ہے کہ تین بار ملک کا وزیراعظم رہنے والا اپنے علاج کیلئے کوئی اسپتال نہیں بنا سکا؟ لعنت ان کے سپورٹرز پر بھی۔‘‘ پی ٹی آئی کےسیکوریٹی انچارج اور عمران خان کے کوآرڈینٹر چوہدری مدثر رضا مچھیانہ نے طنز کیا ،’’جلسہ تو وہ کرتا ہے جو عوام کے دلوں میں بستا ہے اور اس کا نام عمران خان ہے یہ لوگ بس چھوٹی سی جلسی کر سکتے ہیں جس میں۱۰۰؍ افراد آتے ہیں ،وہ بھی بریانی کی لالچ پر۔‘‘
ا ن کے جواب میں عاصم نامی نون لیگ حامی نے لکھا ، ’’مجمع لگانا اور اسی کو اپنی سیاست کا محور سمجھنا صرف مداریوں کی سوچ ہو سکتی ہے، میاں صاحب نے الحمدللہ اپنی حکومت کے دوران اتنے کام کئے ہیں تم جیسے’ چپڑکناتیوں ‘نے انہی کاموں پر تختیاں لگا لگا کر۴؍ سال گزار لئے ۔ ‘‘