Inquilab Logo

’’راجیہ سبھا الیکشن نے ایک مرتبہ پھر بی جے پی کے ہتھکنڈے بے نقاب کردئیے ‘‘

Updated: February 29, 2024, 8:49 AM IST | Mumbai

معروف سماجی کارکن ڈاکٹر لکشمن یادو نے راجیہ سبھا الیکشن کے حوالے سے کہا کہ ان انتخابات نے سماج وادی پارٹی کو اپنے احتساب کا موقع بھی فراہم کردیا ہے

Chief Minister Yogi Adityanath played an important role in BJP`s victory in UP
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے یوپی میں بی جے پی کی جیت میں اہم رول ادا کیا

  یوپی میں راجیہ سبھا الیکشن میں جوسیاسی اٹھا پٹخ دیکھنے کو ملی اس نے ایک بار پھر ہر حال میں الیکشن جیتنے کے بی جےپی کے ہتھکنڈے کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ سماجوادی پارٹی کیلئے بھی یہ ایک بہت بڑا سبق ہے کیوں کہ پارٹی کو   دھوکہ دینے والوں   میں وہ ’’بہت قریبی‘‘ا ور اپنے بھی شامل ہیںجن پر پارٹی کو اعتماد تھا اور جن سے بغاوت کا  اندیشہ ہی نہیں تھا۔ بی جےپی جو آسانی سے ۷؍ سیٹیں جیت سکتی تھی، نے چونکہ ۸؍ امیدوار اتار دیئے تھے اور سماجوادی کے ۳؍ امیدوار تھے اس لئے ۱۰؍ نشستوں کیلئے ۱۱ ؍ امیدوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹنگ کی ضرورت پڑی۔
 اراکین اسمبلی کی گنتی کے لحاظ سے دیکھیں تو ایک راجیہ سبھا سیٹ کیلئے ۳۷؍ ایم ایل ایز درکار تھے۔  اس طرح بی جےپی کے ۷؍ اور سماجوادی کے ۲؍ امیدوار آسانی سےجیت رہے تھے جبکہ سماجوادی کو تیسرے امیدوار کی کامیابی  کے لئے ۳؍ووٹوں کی ضرورت تھی مگر بی جےپی نے اپنا ۸؍واں  امیدوار میدان میں اتار دیا حالانکہ اس کیلئے ۸؍ اراکین اسمبلی کی کمی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یوپی کا راجیہ سبھا الیکشن سرخیوں  میں آگیا۔ اسے جیتنے کیلئے بی جےپی نے پھر اپنا اصل چہرہ دکھا دیا کہ اگر وہ ووٹ کی ضرورت ہوتو وہ ان کے بھی ووٹ لینے میں دیر نہیں کرتی جنہیں کل تک جرائم پیشہ اور بدعنوان کہتے نہیں تھکتی تھی۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کو یہ کہنا پڑا کہ سرکار سے لڑنا سب کے بس کی بات نہیں ہوتی، بہت حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ لوگ کسی پیکیج کیلئے  یا پھر ای ڈی سی یا بی آئی کے ڈر سے  دوسری طرف کھڑے ہوجاتے ہیں۔

راجیہ سبھا الیکشن نے یہ اشارہ دے دیاہے کہ ۲۰۲۴ء کے الیکشن کو جیتنے کیلئے بی جےپی کسی بھی حدتک جاسکتی ہے۔اس ملک کے عام شہریوں کو اگر یہ ساری باتیں بالکل سمجھ میں نہیں آتیں یا ان سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر مبارک ہو، آپ بی جےپی کے رام راج والے ایک ایسے ملک کیلئے تیار ہوچکے ہیں جس میں آئین محض نام کیلئے ہوگا کیوں کہ رام راج میں ایک راجہ کی ضرورت ہوگی جو آپ کے سامنے موجود ہے۔ سماجوادی پارٹی طویل عرصے سے اپنے  نظریات کیلئے سرخیوں پر رہی۔ اکھلیش یادو بطور وزیر اعلیٰ جس گھر میں رہے ، نئی حکومت بننے کے بعد  اس گھر کودھلوایاگیاہے تبھی سے اکھلیش  کے دل میں ایک کسک ہے۔ انہیں یہ احساس دلادیاگیا کہ وہ کیسی ہی ترقی پسند سیاست کریں، وہ پسماندہ ہیں۔ اسی سے نمٹنے کیلئے انہوں نے پی ڈی اے(پسماندہ، دلت اور اقلیتیں) کا نعرہ دیا مگر اس نعرہ کے تحت ووٹ حاصل کرنے والے سماجوادی پارٹی کو چھوڑ کرچلے گئے۔ ان ناموں پر ذرا غور کرلیجئے اور اگر نظریات کے لحاظ  باتیں صاف ہونے لگیں تو سوچئے گا ضرور۔پہلا نام راکیش پانڈے، دوسرا نام راکیش پرتاپ سنگھ، تیسرا نام ابھے  سنگھ، چوتھا نام ونود چترویدی، پانچواں نام منوج پانڈے۔  ایک بار کی بات ہے  جب پی ڈی اے کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ آپ اعلیٰ ذاتوں کی بات نہیں کرتے تب سب کوخوش کرنے کیلئے اکھلیش نے کہاتھا کہ ہم نے ’اے ‘ میں  ’اگڑا‘ بھی رکھا ہے مگر راجیہ سبھا الیکشن نے اکھلیش کو سمجھا دیا ہواگا کہ ’اے ‘اصل میں کس کیلئے ہے، کون نظریات کے معاملے میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔  بہرحال  آگے بڑھتے ہیں،  مہاراج دیوی غیر حاضر رہیں، پوجا پال  نے این ڈی  اے کو ووٹ دیا، اکھلیش موریہ غیر حاضررہے۔ اکھلیش یادو نے ان کے تعلق سے اشارہ دیاہے کہ کوئی اپنے مقدمے بچارہاہے، کوئی بے نامی زمینوں کو ، کسی کو تحفظ چاہئے تو کسی کو پیکیج۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سارے لوگوں کیلئے نظریات کوئی معنی نہیں رکھتے۔  راجیہ سبھا الیکشن  نے سماجوادی پارٹی کو   لوگوں کو پہنچاننے کا موقع دے دیا ہے۔ امید ہے کہ اکھلیش یادو اس کو سمجھیں گے اور لوگوں کو پہنچانیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK