Inquilab Logo

یوکرین پر حملہ عالمی نظام میں تبدیلی کا ایک حصہ ہے

Updated: October 29, 2022, 12:34 PM IST | Agency | Moscow

روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین جنگ کو عالمی برادری پر مغرب کی اجارہ داری کا خاتمہ قرار دیا،امریکہ نے جواب میں کہاکہ وہ روس سے نمٹنے کیلئے پوری طرح تیار ہے

Putin has made his intentions clear .Picture:INN
ولادیمیر پوتن نے اپنے ارادے ظاہر کر دیئے ہیں تصویر: ایجنسی

؍ ۸؍ ماہ سے جاری یوکرین جنگ میں اب مزید شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یہ بیان دے کر اپنے ارادوں کو ظاہر کر دیا ہے کہ ’’  یوکرین پر حملہ عالمی نظام میں تبدیلی کا ایک حصہ ہے ‘‘ یعنی یہ حملہ کیا ہی اس لئے گیا ہے کہ عالمی برادری پر مغرب کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ واضح رہے کہ ایک روز قبل ولادیمیر پوتن ماسکو میں  والڈائی ڈسکشن کلب  کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس خطاب میں پوتن نے یوکرین سے زیادہ مغرب کو نشانہ بنایا اور امریکہ کو سخت جواب دینے کا انتباہ دیا۔ 
  پوتن نے کہا کہ ’’ دنیا اس وقت دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے خطرناک دہائی میں ہے۔‘‘  انہوں نے یہاں تک کہا کہ اب عالمی منظرنامے پر مغرب کے غیر منقسم  تسلط کے تاریخی دور کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ روسی صدر نے امریکہ پر یوکرین کے تنازعے کو بھڑکانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مغرب ایسا `خطرناک، خونی اور گندہ  جیو پالیٹکل گیم کھیل رہا ہے، جو پوری دنیا میں افراتفری کا بیج بونے کا باعث بن رہا ہے۔ یاد رہے کہ یوکرین جنگ شروع ہی اس بنا پر ہوئی تھی کہ نیٹو نے اپنی فوجیں یوکرین کی سرحد پر تعینات کر دی تھیں جس کی وجہ سے ماسکو کے مطابق روس کی ’سلامتی‘ کو خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔  پوتن کا اشارہ اسی جانب تھا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد بھی امریکہ اور یورپ یوکرین کی پوری طرح سے جنگی مدد کر رہے ہیں۔   روسی صدر نے کہا ’’ ہم ایک ایسے تاریخی محاذ پر کھڑے ہیں ،  جس کے آگے شاید سب سے زیادہ خطرناک، غیر متوقع اور اس کے ساتھ ہی دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا کو سب سے اہم عشرے کا سامنا ہے۔ ان کے اس بیان کو تیسری عالمی جنگ کا اشارہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ روس کے یوکرین  پر حملے کو بہت سے میڈیا چینلوں نے تیسری عالمی جنگ کی ابتدا کے طور پر ہی پیش کیا تھا۔  حالانکہ اپنے خطاب میں پوتن نے امن اور صلح کی بات بھی کہی ہے۔  انہوں نے کہا ’’روس نے محاذ آرائی کے موجودہ مرحلے کے باوجود مغرب کو روس کا دشمن نہیں سمجھا ہے۔ مغرب اور نیٹو کے سرکردہ ممالک کیلئے ماسکو کا ` ایک پیغام ہے: آئیے دشمن بننا چھوڑ دیں، آئیے ساتھ رہیں ۔
 امریکہ روس سے نمٹنے کیلئے تیار
  روسی صدر کے بیان کے بعد ہی امریکہ کی جانب سے بھی  روس سے نمٹنے کا اعلان کیا گیا۔ وہائٹ ہاؤس نے جمعرات کو ایک میڈیاہائوس کو دیئے گئے بیان کہا کہ واشنگٹن کو بنیادی ڈھانچے کیلئے کسی بھی روسی خطرے کا فیصلہ کن ردعمل کے ساتھ سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی جانب سے دیئے گئے اس بیان میں زور دیا گیا ہے کہ امریکی سیٹیلائٹ کو نشانہ بنانے کے امکان کا خطرہ اشتعال انگیز ہے۔وہائٹ ہاؤس نے مزید کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا آئندہ جی ۲۰؍ سربراہی اجلاس میں روسی صدر پوتن  کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔  لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ پوتن ہماری جوہری صلاحیتوں کو جانتے ہیں ۔ ہمارے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے علاوہ کئی آپشن موجود ہیں۔ انہوں نے کہا امریکہ دفاع کیلئے درکار فوجی ساز و سامان کے ساتھ یوکرینیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔اسٹریٹجک حملہ اور جوہری ہتھیاردریں اثنا پنٹاگون نے جمعرات کو شائع ہونے والی اپنی نئی جوہری حکمت عملی میں خبردار کیا ہے کہ امریکہ جوہری ہتھیاروں کو کسی بھی سٹریٹجک حملے کو روکنے کیلئے سمجھتا ہے۔
  یوکرین حیاتیاتی ہتھیار استعمال کر رہا ہے ؟
  یاد رہے کہ اس وقت یوکرین جنگ کے تعلق سے کئی خبریں سامنے آ رہی ہیں جس میں روس نے ایک طرف الزام لگایا ہے کہ اس کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ یوکرین اس جنگ میں حیاتیاتی ہتھیار استعمال کر رہا ہے جو اسے مغرب نے دیئے ہیں۔ یاد رہے کہ روس نے یہ الزام  جنگ کی شروعات میں ہی لگایا تھا لیکن اب وہ باقاعدہ اس کے ثبوت پیش کرنے کی بات کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ سے اس نے اپیل کی ہے کہ اس معاملے کی باقاعدہ جانچ کی جائے۔  دوسری طرف  اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمائندے گرین فیلڈ نے اس الزام کو مسترد کر تے ہوئے اسے ’خالص بہتان ‘قرار دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کا ملک یہ واضح کرتا ہے کہ یوکرین کے پاس حیاتیاتی ہتھیاروں کا کوئی پروگرام موجود نہیں جس طرح امریکہ کے پاس بھی ایسا کوئی پروگرام موجود نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK