Inquilab Logo

عدالت نے آر ٹی ای کے ترمیم شدہ ایکٹ پر روک لگادی

Updated: May 07, 2024, 8:48 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

کورٹ نے عوامی مفاد میں آر ٹی ای سے متعلق جاری کردہ نوٹیفکیشن پر روک لگائی ، حکومت کو اس ضمن میں جوابی حلف نامہ داخل کرنے کا حکم، عوام میں خوشی کی لہر۔

RTE volunteers can be seen outside the Bombay High Court. Photo: INN
آر ٹی ای رضاکاروں کو بامبے ہائی کورٹ کے باہر دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر : آئی این این

حکومت کے ذریعہ رائٹ ٹو ایجو کیشن ( آر ٹی ای ) کے ترمیم شدہ ایکٹ میں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو اس وقت بڑی راحت مل گئی جب ہائی کورٹ نے مذکورہ بالا معاملہ پر سماعت مکمل ہونے تک روک لگا دی ۔ آر ٹی ای کے ترمیم شدہ ایکٹ میں اور اس ضمن میں حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سرکاری اسکول کی موجودگی اور اس کے ایک کلو میٹر کے دائرے میں واقع پرائیویٹ اَن ایڈیڈ اسکولوں کو ۲۵؍ فیصد کوٹہ کے تحت داخلہ دینے کی شرط سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے پرائمری اسکول سے لے کر ۸؍ ویں جماعت میں آر ٹی ای کے تحت پرائیویٹ ان ایڈیڈ اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ اس سہولت سے محروم ہورہے ہیں۔ 
 پیر کو مذکورہ بالا معاملہ میں اشونی کامبلے اور مومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس ( ایم پی جے ) کے علاوہ دیگر اداروںکی جانب سے داخل کردہ عرضداشتوں پر سماعت کرتے ہوئے بامبےہائی کورٹ کے چیف جسٹس دیویندر کمار اپادھیائے نے بذات خود اس بات کا نوٹس لیا کہ حکومت نے طلبہ کے داخلہ کے سلسلہ میں جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے وہ آر ٹی ای کے آر ٹیکل ۱۴؍ ۲۱؍ اور ۲۱؍ اے کی نہ صرف خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ۲۰۰۹ء کے ایکٹ کے مطابق طلبہ کے مفت اور لازمی طو ر پر تعلیم حاصل کرنے کے حق سے بھی محروم کر دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اروند ساونت کو کامیاب کرنے کیلئے سماجوادی اور کانگریس پارٹی کمر بستہ

کورٹ نے مذکورہ بالا عرضداشت ، کئے گئے اعتراضات اور فراہم کردہ تفصیلات کا جائزہ لینے کے بعد نہ صرف داخلہ کے سلسلہ میں حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر سماعت مکمل ہونے اور کسی نتیجہ پر پہنچنے تک کے لئے روک لگا دی ہے بلکہ نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ چیف جسٹس دیویندر کمار اپادھیائے نے کہا کہ ’’ عوامی مفاد اور طلبہ کے تعلیمی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ضمن میں اگلے احکامات جاری کئے جانے تک آر ٹی ای کے ترمیم شدہ ایکٹ کے مطابق داخلہ کی کارروائی نہیں کی جائے گی ۔‘‘عدالت نے اس ضمن میں الہ آباد ہائی کورٹ و دیگر عدالتوں کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا جس میں مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ بھی شامل ہے ، نے آر ٹی ای کے تحت کی گئی ترمیم کو ختم کر دیا تھا ۔
 یاد رہے کہ عرضداشت گزاروں نے سرکاری اسکول کی موجودگی اور اس کے ایک کلو میٹر کے دائرے میں موجود پرائیوٹ ان ایڈیڈ اسکولوں کو آر ٹی ای کے تحت ۲۵؍ فیصد سیٹ طلبہ کو داخلہ دینے  سے مستثنیٰ قرار دیئے جانے کے حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا تھا ۔ داخل کردہ عرضداشتوں کے ذریعہ نہ صرف پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو آر ٹی ای کے تحت داخلہ کی ضمن میں ملنے والے فائدہ سے محروم رکھے جانے کی اطلاع دی گئی تھی بلکہ حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر روک لگانے کی بھی اپیل کی گئی تھی۔
اس پر ہونے والی سماعت کےد وران سرکاری وکیل جیوتی چوان نے نوٹیفکیشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’پرائیویٹ ان ایڈیڈ اسکولوں کو ۲۵؍ فیصد کوٹہ سے مستثنیٰ نہیں کیا گیاہے البتہ اس کا اطلاق صرف ان نجی اسکولوں پر ہوتا ہے جہاں ایک کلومیٹر کے دائرے میں سرکاری یا امداد یافتہ اسکولیں موجود ہیں۔‘‘ اس پر کورٹ نے کہا کہ ۲۰۰۹ء کے آر ٹی ای ایکٹ جس میں دفعہ ۱۲(۱) (سی ) کے تحت پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو ۲۵؍ فیصد کوٹہ کے تحت داخلہ دینا لازمی ہے، ترمیم شدہ ایکٹ میں طلبہ کو اس کا فائدہ نہیں مل رہا ہے ۔کورٹ نے حکومت کو اس ضمن میں جوابی حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کو ۱۲؍ جون تک کے لئے ملتوی کر دیا ہے ۔ وہیں عدالت کی کارروائی کے بعدایم پی جے کے صدرمحمد سراج نے انقلاب سے بات چیت کے دوران کہا کہ ’’عدالت آر ٹی ای کے موجودہ ترمیم شدہ ایکٹ اور حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر عبوری روک لگانے سے طلبہ کو یقینی طور پر راحت ملی ہے ۔ ہماری خواہش یہی ہے کہ پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ سے عدم مساوات کرنے کے بجائے تعلیمی اعتبار سے برابری کا حق دیا جائے۔ ہم عدالت کے فیصلے سے خوش ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK