Inquilab Logo

احتجاج کے مقامات گھر کی طرح تھے ،ان کی یاد زندگی بھر باقی رہے گی

Updated: December 10, 2021, 8:27 AM IST | new Delhi

سنگھو بارڈر پر گزشتہ ایک سال سے خیمہ زن رہنے والے کسانوںکا کہنا ہے کہ یہاںسے جاتے ہوئے انہیںاچھا نہیںلگ رہا ہے ، جائے احتجاج پرفوت ہونے والے کسانوں کی یادگار قائم کرنے کا مطالبہ کیا

Empty the tents that the farmers had made their home. (PTI)
کسانوںنے وہ خیمےخالی کردئیے جنہیںانہوں نے اپنا گھر بنالیا تھا ۔(پی ٹی آئی )

:گزشتہ ایک سال سے جاری کسان  تحریک کے خاتمے کا اعلان کردیاگیا ہے۔تین زرعی قوانین کےخلاف جنہیںمنسوخ کیا جاچکا ہے ، چلائی جانے والی اس تحریک کی کامیابی کے بعد کسان اب گھروںکو لوٹ جائیںگے لیکن جن جگہوںپرکسانوں نے احتجاج کیا،جو مقامات ان کی اس تحریک کے گواہ بنے ،کسانوںنے جذباتی انداز میں انہیں اپنا گھر قراردیا  اورکہاکہ ان کی یادزندگی بھر باقی رہے گی ۔
’’خیمہ میں گھر کی طرح محسوس ہوتا تھا‘‘
 پٹیالہ سے تعلق رکھنے والے ۶۵؍ سالہ کسان امریک سنگھ نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سنگھو بارڈر پر نصب خیمے میںانہیںگھر کی طرح محسوس ہوتا تھا  اور  اسے اب چھوڑکر جاتے ہوئے انہیںافسوس ہورہا ہے۔ امریک سنگھ کے بقول’’  مجھے  ایسا بھی لگتا ہےکہ احتجاج ختم ہونے کے بعد مجھےیہاںایک گھر کرائے پر لے لینا چاہئے ۔ ‘‘لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے سوداگر سنگھ نے کسان تحریک کے کامیاب خاتمہ پر کہا’’ہم نے سمجھ لیا تھا کہ حکومت ہماری بات نہیںسنے گی اورہمیںیہاںرکنا پڑے گا لیکن بالآخرہماری جیت ہوئی اورزرعی قوانین  واپس لے لئے گئے ۔ اب گھر جانے کا وقت ہے لیکن ہمیںاچھا نہیںلگ رہا ہے۔‘‘گھر جانے کی تیاری کرنے وا لے کسان مظاہرین کا کہناہے کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والی چیزیںضائع کردیں گےاورنجی نوعیت کا سامان اور گاڑی وغیرہ  ساتھ لے جائیں گے ۔سوداگر سنگھ نے بتایا ’’ گھر لے جانے کیلئے کوئی بہت زیادہ سامان نہیں ہے،بہت سی چیزیںہم مقامی افراد کو دے دیں گے کیونکہ احتجاج کے دوران بہت سے  لوگ ہمارے پاس باقاعدہ آتے رہتے تھے ۔ ‘‘ 
جان گنوانے والے کسانوں کی یادگار قائم کرنے کا مطالبہ 
 سنگھوبارڈر پر احتجاج کرنے والے ایک اور کسان ہرکیرت    نے کہا  ’’ اس تحریک کے دوران جان گنوانے والے اپنے کسان بھائیوںکیلئے ہم نے یہا ںیادگار قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیاہے،ایک مرتبہ یادگار قائم  ہوگئی تو ہم بار بار یہاںآیا کریں گے۔ ‘‘کسان تنظیموں کے مطابق ایک سال سے جاری رہنے وا لی اس تحریک میں۷۰۰؍ کسانوں کی جانیںگئی ہیں ۔ایودھیا سے آنے والے کملا پتی باگھی نامی کسان کا کہنا ہے’’اگرضرورت پڑی تو ہم یہاںمہینوں اور برسوں رہ سکتے ہیں۔ ‘‘فتح گڑھ صاحب سے تعلق رکھنے والے نوجوان کسان بل پریت سنگھ نے کہا کہ احتجاج ضرور ختم ہوگیا ہے لیکن کسانوںکے زیر التوا مسائل کے حل کی جدوجہدجاری رہےگی ۔
شاہ جہاں پور سرحد سے ٹینٹ ہٹنے لگے
  تینوں زرعی قوانین واپس لے لیے جانے کے بعد اب شاہ جہاں پور ۔ ہریانہ بارڈر سے کسانوں کے ٹینٹ کھلنے شروع ہوگئے اور جمعہ کی صبح تک پوری طرح سے بارڈر خالی ہوجائے گا۔
 کسانوں کی جھوپڑی ہو یا تمبو سب ہٹا لیے جائیں گے۔ کسانوں کے چہرے پر خوشی ہے۔ کسان لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان کے مطالبات کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ایم ایس پی کے سلسلے میں کمیٹی تشکیل دی جاچکی ہے۔ اس وجہ سے کسان تحریک ختم کررہے ہیں۔ شاہ جہاں پور۔ ہریانہ بارڈر پر کسان لیڈر راجارام میل، رنجیت سنگھ، پیما رام، تارا سنگھ، پون دُگل، امر رام سمیت کافی کسان موجود رہے۔
 کسان یونین کے ریاستی صدر راجارام میل اور ضلع ہیڈ بلویر چھلر نے بتایا کہ جمعہ کی صبح ۱۰؍ بجے بارڈر پر موجود کسانوں کااستقبال کیا جائے گا۔شاہ جہاں پور ۔ ہریانہ بارڈر پر کسان گزشتہ۲؍ دسمبر سے تحریک چلا رہے تھے۔ پہلے ریکو کے پاس کسانوں کی تحریک شروع ہوئی تھی۔ بعد میں کسان نیشنل ہائی وے۴۸؍کے بارڈ پر آکر جم گئے تھے۔ تب سے لگاتار تحریک جاری  رہی۔ اب تمام ٹینٹ کھلنے شروع ہوگئے ہیں۔ جمعہ تک پورا بارڈر صاف ہوجائے گا۔
’’کسان ۳۰۰؍ سال بعد متحد ہوئے ہیں‘‘
 بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر  راکیش ٹکیت تحریک کے خاتمہ پر کہا کہ ملک کی کسان برادری ۳۰۰؍ سال بعدمتحد ہوئی ہے۔لڑائی میںہار اور جیت تو ہوتی رہتی ہے ، بڑی بات یہ ہےکہ اب کسان ایک ساتھ ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK