Inquilab Logo

ترکی: زلزلہ کا ایک سال مکمل، متاثرین کی یاد میں ہزاروں افراد کا سوگ

Updated: February 06, 2024, 10:12 PM IST | Antakya

گزشتہ سال ۶؍ فروری کو صبح ۴؍ بجکر ۱۷؍ منٹ پر ترکی میں ۸ء۷؍ شدت کے زلزے نے بڑے پیمانے پر تباہی برپا کی تھی۔ اس کے جھٹکے شام تک محسوس کئے گئے تھے۔ ایک سال گزر جانے کے بعد زلزلہ متاثرین سے اظہار یکجہتی کے طور پر حکومت، حزب اختلاف اور شہریوں نے ان علاقوں کا دورہ کیا ۔ جو علاقے زلزلے میں تباہ ہوگئے تھے، وہاں تعمیر نو جاری ہے۔

Thousands of people gathered in Antakya, Turkey to show solidarity with the victims of last year`s earthquake. Photo: INN
انطاکیہ، ترکی میں گزشتہ سال آئے زلزلے کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کیلئے ہزاروں افراد جمع ہوئے۔ تصویر: آئی این این

ترکی میں گزشتہ سال فروری میں آئےتباہ کن زلزلہ میں اپنے دوستوں، عزیزوں اور پڑوسیوں سمیت ۵۳؍ ہزار لوگوں کی ہلاکت پر منگل کو لاکھوں لوگوں نےسوگ منایا۔ ’’صدی کی سب سے بڑی تباہی‘‘کے نام سے حکومت نے ملک کے جنوب میں ایک سال قبل آئی قدرتی آفت سے متاثر ہونے والوں کی یاد میں مختلف مقامات پرتقریبات کا اہتمام کیا۔ 
 انطاکیہ میں مشتعل ہجوم نے پولیس کے ساتھ دھکا مکی بھی کی۔ یہاں کے میئر لوفتو ساواس کا استقبال ان کے استعفے کی مانگ کے نعروں کے ساتھ کیا گیا جبکہ وزیر صحت فرحتین کوکا کی تقریر کے دوران ان پر طنز کیا گیا۔ اورونٹس دریا کے کنارے دھند کے درمیان لوگوں نے نعرے لگائے ’’کیا کوئی مجھے سن سکتا ہے؟‘‘ ایک سال قبل جو ملبوں کے نیچے دب گئے تھے، ان کی آواز بلند کرتے ہوئے لوگوں نے نعرہ لگایا ’’نہ بھولیں گے اور نہ معاف کریں گے۔‘‘

فروری ۲۰۲۳ء میں ترکی میں آئے زلزلے کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این

انطاکیہ کے ۲۴؍سالہ مصطفیٰ بہادر یلی نے کہا کہ ’’ہم میں سے کچھ لوگ زندہ دفن ہو گئے تھے۔‘‘ ہم نے اپنی حکومت کو باپ کہا لیکن حکومت نے ہمیں بغیر باپ کے چھوڑ دیا۔ ہم کتنے دنوں تک لاوارث تھے اور اب تک لاوارث ہیں۔‘‘
 ۲۲؍ سالہ سیبنیم یسیل نے حکومت اور حزب اختلاف کے لیڈروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ وہ بے حرمتی کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایک سال ہو گیا۔ وہ نہیں آئے اور اب ایک تقریب میں آئے ہیں۔ تم نے ہماری آواز نہیں سنی، تم نے ہماری مدد نہیں کی، کم از کم ہمیں تنہا غم منانے دے دو۔‘‘

گزشتہ دن ترکی میں ہوئے ایک فٹ بال میچ کے دوران شائقین نے اسٹیڈیم میں زلزلہ متاثرین کیلئے کھلونے عطیہ کئے۔ تصویر: آئی این این

زلزلہ کا وقت صبح ۴؍ بجکر ۱۷؍ منٹ تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد مہلوکین کی یاد میں پھول ندی میں اچھال دیئے گئے۔ مقامی آرکسٹرا نے ان کی تعظیم میں نغمہ بجایا۔ حتایا جو بحیرۂ روم اور شام کی سرحد کے درمیان واقع ہے ۸ء۷؍ شدت کے زلزلہ سے ۱۱؍ جنوبی صوبوں میں سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ جہاں شام میں ہلاک ہونے والے ۶؍ ہزار شہریوں سمیت ۵۳؍ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ اڈیامان میں ہجوم نے گھڑی کے ایک ٹاورسے جو گزشتہ سال آئے زلزلہ کا وقت ظاہر کر رہا تھا، ایک خاموش جلوس نکالا۔ بعد ازاں رجب طیب اردگان نے زلزلہ کے مرکز کہرامنمارس میں شہر کی ازسر نو تعمیری کام اور ہزاروں لوگ جو اب بھی خیمہ اور پہلے سے تیار شدہ کنٹینر میں رہ رہے ہیں اس کا دورہ کرنے کےبعدشہر کی تعمیر نو کیلئے بنائے جارہے گھروں کا معائنہ کیا۔ 
اردگان نے کہا کہ ’’آج ہم نے کہرامنمارس میں ۹؍ ہزار ۲۸۹؍ مکانوں کیلئے قرعہ اندازی کی اورچابی ان کے حوالے کی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا ہدف اس سال کے آخر تک زلزلہ سے متاثر خطے میں ۲؍ لاکھ مکانوں کا ہے۔ یہ تقریب قومی سطح پر نشر کی گئی جس میں اردگان نے قرعہ اندازی میں گھر حاصل کرنے والوں کو اسٹیج پر بلا کر گھروں کی چابی ان کے حوالے کی۔ 
اس سے قبل صبح ۴؍ بجکر ۱۷؍ منٹ پر سوشل میڈیا پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا کہ ’’تباہی سے ہونے والے نقصان کا زخم آج بھی ہمارے دلوں میں اتنا ہی تازہ ہے جتنا پہلے دن تھا۔‘‘ مزید یہ کہ ’’خدا کا شکر ہے کہ قوم اس تاریخی اور دردناک امتحان سے کامیابی کے ساتھ گزر گئی۔‘‘

حزب اختلاف کے سیاستداں بھی اس خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔ ریپبلیکن پیپلز پارٹی کے لیڈر اوزگر اوزیل نے غازیتیپ اور کہرامنمارس جانے سے قبل ہتایا میں زلزلہ متاثرین کی یاد میں منائی جارہی تقریب میں شرکت کی۔ زلزلہ سے متاثر خطے میں اکثر اسکول بند رہے۔ مالاتیا میں گورنر نے تین دن کیلئے سرکاری طور پر منظور شدہ تقریبات کے باہر کسی بھی طرح کے جلوس اور دیگر عوامی نمائش پر پابندی عائد کردی تھی۔ 
دریں اثنا ء شام میں ریڈ کراس کے وفد کے بین الاقوامی فیڈریشن کے سربراہ میڈس برنچ ہینسین نےجنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ جنگ زدہ ملک میں زلزلہ کے بعد تعمیر نو کے امکانات بہت کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ ہم اتنے بڑے پیمانے پر بازآباد کاری اور تعمیر نو کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK