Inquilab Logo

 نوٹ بندی کی توثیق مگر اختلافی فیصلہ موضوع ِ بحث

Updated: January 03, 2023, 10:20 AM IST | Ahmadullah Siddiqu | new Delhi

۵؍ رکنی بنچ کے ۴؍ ججوں نے مودی سرکار کا یہ دعویٰ تسلیم کرلیا کہ نوٹ بندی ریزرو بینک کے ساتھ ۶؍ ماہ سے جاری صلاح ومشورہ کا نتیجہ تھی مگراس سے اختلاف کرتے ہوئے جسٹس ناگرتنا نے فیصلہ میںواضح طور پر کہا کہ نوٹ بندی بغیر سوچے سمجھےمحض ۲۴؍ گھنٹوں میں کردی گئی، ریزروبینک آزادی سے فیصلہ نہیں کرسکا

At the time of demonetisation, the entire country was seen standing in a queue in the same way. (file photo)
نوٹ بندی کے وقت پورا ملک اسی طرح قطار میں کھڑا ہوا نظر آرہاتھا۔ (فائل فوٹو)

سپریم کی ۵؍رکنی  آئینی بنچ نےمودی سرکار کے ذریعہ  ۲۰۱۶ء  میں نافذ کی گئی  نوٹ بندی کوایک  کے مقابلے  ۴؍ کے  اکثریتی فیصلے  سے جائز ٹھہرادیا تاہم جسٹس بی وی ناگرتنا  جنہوں  نے   اپنے چاروں ساتھی ججوں  سے اختلاف کیا ، نے اپنے  اختلافی مشاہدات میں  نوٹ بندی کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے کہا کہ آر بی آئی اس معاملے میں آزادانہ طور پر کام نہیں  کر سکا اور  ۵؍سو اور ہزار روپے کے نوٹس اچانک بند کرنے کافیصلہ محض ۲۴؍ گھنٹوں میں بغیر سوچے سمجھے کیاگیا ۔ 
اکثریتی فیصلہ کے مقابلہ اختلافی فیصلہ زیر بحث
 نوٹ بندی  کے خلاف داخل کی گئی پٹیشنوں پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیاگیا تھا جو کم وبیش  ایک ماہ بعد سنایاگیا ہے۔ گرچہ  ۵؍ رکنی بنچ میں ۴؍ ججوں کی اکثریت نے نوٹ بندی کو قانونی طورپر دست قراردیا ہے مگر جسٹس ناگرتنا کا اختلافی فیصلہ موضوع بحث بنا ہو اہے۔  انہوں نے  مرکزی حکومت کے حکم پر ۵۰۰؍ اور ایک ہزار روپے کی سبھی کرنسی کی سیریز کو اچانک بند کرنے کو انتہائی سنگین معاملہ بتایا۔انہوں نے اپنے مشاہدہ میں کہاکہ’’آربی آئی کی طرف سے پیش ریکارڈ کا مطالعہ کرنے پر  مجھے وہاں ایسے الفاظ اور جملے ملے  جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت نے ۵۰۰؍ اور ایک ہزار کے قانونی نوٹوں کو واپس لینے کی سفارش کی  ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریزرو بینک نے آزادانہ طور پر اپنے صوابدید استعمال کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی بینک کے پاس اتنے سنگین معاملے پر اپنی صوابدید استعمال کرنے کا وقت تھا،کیونکہ ۵۰۰؍ اور ایک ہزار کے نوٹ کے سبھی سیریزکو محض ۲۴؍گھنٹے میں بند کردیا گیا۔‘‘ 
ایسی  پابندی آر بی آئی کے اختیارات سے بھی باہر
 جسٹس ناگرتنا نے یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت کی تجویز پر ریزرو بینک نے جو مشورہ دیا ہے اسے قانون کے مطابق دی گئی سفارش نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ قانون میں آر بی آئی کو جو اختیارات   دیئے گئے  ہیں ان  کے مطابق، کسی بھی کرنسی کی تمام سیریز پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ سیکشن ۲۶(۲) کے تحت کسی بھی سیریز کا مطلب تمام سیریز نہیں ہے ۔
۴؍ ججوں نے حکومت کا دعویٰ قبول کیا
 ۵؍ رکنی بنچ جو جسٹس عبدالنظیر، بی آر گوئی، اے ایس بوپنا، وی رام سبرامنیم اور بی وی ناگرتنا پر مشتمل تھی،  کے اول الذکر ۴؍ ججوں  نے اتفاق رائے سے نوٹ بندی کو قانونی تسلیم کیا۔ا نہوں  نے مودی حکومت کے اس دعوے کو قبول کیا کہ اس سلسلے میں  حکومت اور آر بی آئی    کے درمیان ۶؍ ماہ سے صلاح و مشورہ ہو رہا تھا۔ فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس گوئی نے کہا کہ نوٹ بندی کے فیصلے کا تعلق اس کے اہداف سے ہے مگر اہداف حاصل ہونے یا نہ ہونے کا کوئی تعلق اس فیصلے کی قانونی حیثیت سے نہیں ہے۔  چاروں جج نے نوٹوں کو بدلنے کیلئے دیئے گئے محض ۵۲؍ دنوں کو بھی کافی قراردیا۔ بنچ نے کہا کہ اس فیصلے کو صرف اس لئے غیر قانونی نہیں قراردیا جاسکتا کہ ریزرو بینک کے سامنے اس کی تجویز مرکزی حکومت  نے پیش کی تھی۔ کورٹ نے کہا کہ ’’معاشی پالیسیوں کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
نوٹ بندی کا ایک بھی ہدف حاصل نہیں ہوا
 واضح رہے کہ وزیر اعظم مودی کے ذریعہ ۲۰۱۶ء میں نوٹ بندی کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تھااور عرضی گزاروں نے خود حکومت کے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن مقاصد کے پیش نظر حکومت نے نوٹ بندی کا دعویٰ کیا تھا،ان میں سے ایک بھی مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکا۔جبکہ وزیراعظم مودی نے نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس سے دہشت گردی ،کالادھن ،جعلی کرنسی سمیت سبھی مسائل کا حل نکلے گا۔
سپریم کورٹ کافیصلہ مخصوص تناظر میں: کانگریس
 دوسری طرف کانگریس نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر ردعمل میں  نوٹ بندی کو گہرا زخم قرار دیا۔کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ بی جے پی حکومت کی نوٹ بندی کے فیصلے کے نتیجہ میں  ۱۲۰؍افراد کی جانیں گئیں، کروڑوں لوگ بے روزگار ہوئے اورغیر منظم شعبہ تباہ ہوگیا۔کالے دھن میں بھی کمی واقع نہیں ہوئی جبکہ جعلی کرنسی میں اضافہ ہوگیا۔مودی حکومت کا نوٹ بندی کا فیصلہ ہندوستانی معیشت پر ہمیشہ گہرے زخم کی طرح رہے گا۔ کانگریس نے یہ بھی کہا ہے کہ سپریم کورٹ کااکثریتی فیصلہ صرف اس تناظر میں  ہے کہ آربی ایکٹ ۱۹۳۴ء کی دفعہ ۲۶(۲)کی درست طریقے سے تعمیل کی گئی تھی کہ نہیں،جبکہ ایک معزز جج نے اپنا اختلافی فیصلہ بھی  سنایا ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر جئے رام رمیش نے کہاکہ ’’سپریم کورٹ کے فیصلے میں نوٹ بندی کے اثرات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ، جو تباہ کن فیصلہ تھا۔ اس فیصلے نے ترقی کی رفتار کو نقصان پہنچایا ،   غیرمنظم شعبے کو تباہ کردیا اور لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی تباہ کردی۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK