اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان ۱۶؍ مختلف معاہدے ہوئےاور امریکہ سمیت دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان کے پاس بھی متبادل موجود ہیں ،وہ کسی ایک ملک پر منحصر نہیں ہے
ولادیمیر پوتن اور نریندر مودی کی ملاقات پر دنیا بھر کی نظر تھی۔ تصویر: آئی این این
روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ہندوستان دورے کو میڈیا میں کافی اہمیت دی گئی۔ اس موقع پر دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں۱۶؍ معاہدوں پر دستخط کئے۔ نیز پوتن اور مودی کی ملاقات میں دفاع اور جوہری توانائی کے شعبوں میں تعاون بھی تبادلۂ خیال ہوا۔ پوتن کے اس دورے میں دونوں ممالک نے معاشی تعلقات کو مزید وسعت دینے کا منصوبہ تیار کیا ۔دونوں ممالک کے درمیان جو ۷۰؍ ارب ڈالر کا کاروبار ہے اسے اگلے ۵؍ سال میں ۱۰۰؍ ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم کیا گیا۔
اطلاع کے مطابق ہندوستان اپنے کپڑوں، دواؤں،ا سمارٹ فون، گوشت، جھینگوں، آلوئوں کیلئے روس میں مارکیٹ تلاش کر رہا ہے، ساتھ ہی آئی ٹی میں بھی امکانات دیکھ رہا ہے۔ نیزاپنی توجہ اب تیل اور دفاع کے علاوہ دیگر شعبوں پر بھی مرکوز کر رہا ہے۔ پوتن کے ساتھ اس دورے میں روس کے وزیر دفاع آندرے بلوسوف بھی موجود تھے۔ انھوں نے اپنے ہندوستانی ہم منصب راج ناتھ سنگھ سے طویل گفتگو کی جس میں ایس ۴۰۰؍ ساخت کے مزید دفاعی نظام اور اس کیلئے میزائلوں کی خریداری پر غور وخوض کیا گیا۔
روس نے ہندوستان کو ففتھ جنریشن کے ایس یو ۵۷؍ جنگی جہاز فروخت کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ عالمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس ۴۰۰؍ پر پیش رفت ہوئی ہے۔ روس نے تین سسٹم ہندوستان کو دیئے تھے ۔ آئندہ برس تک دو ڈیفنس سسٹم اور آنے والے ہیں۔ اسکے علاوہ ہندوستان مز ید ۵؍ ایس۔ ۴۰۰؍ خریدنے کی بات کر رہا ہے لیکن ایس یو ۵۶؍ فائٹر جیٹ کے بارے میں ہندوستان نے پہلے بتا دیا تھا کہ کئی وجوہات کی بنا پر وہ یہ جہاز نہیں لے سکے گا۔ تاہم ہندوستان اپنا ہر سیکٹر روس کیلئے کھولنے جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب یوکرین جنگ کے سبب امریکہ اور یورپ نے روس کے خلاف بڑے پیمانے پر تجارتی اور دفاعی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ اور یورپ نے روس کو الگ تھلک کرنے کی کوشش جاری رکھی ہے۔امریکہ نے روس سے بڑی مقدار میں تیل خریدنے کی پاداش میں ہندوستان کے خلاف بھی ۵۰؍ فی صد ٹیریف لگا رکھا ہے۔ ہندوستان نے اگرچہ گزشتہ مہینوں میں روس سے تیل لینا بتدریج کم کر دیا ہے اور اب وہ امریکہ سے بھی تیل خرید رہا ہے لیکن امریکہ نے ابھی تک ہندوستانی مصنوعات سے ٹیریف ہٹایا ہے جس کے سبب دونوں ملکوں میں سیاسی اور سفارتی تعطل برقرار ہے۔
بعض ماہرین اس دورے کو پوتن کی سیاسی جیت قرار دے رہے ہیں جوکہ ہندوستان کے ایکمضبوط پارٹنر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دوسری میعاد صدارت میں ہند بحرالکاہل اور چین کے دائرہ اثر کو روکنے سے متعلق اپنی پالیسی پرسے توجہ ہٹا لی ہے۔ اسلئے اس پالیسی میںہندوستان کی اہمیت ایک اہم ملک کے طور پر ختم ہو گئی ہے۔اسی لئے امریکی انتظامیہ نے ہندوستان کو معاشی نقصان پہنچانے کیلئے اونچی شرح کا ٹیرف نافذ کیا اور اس کے اوپر روس سے تیل خریدنے کیلئے مزید ۲۵؍فی صد ٹیریف لگا دی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسلئے اس پس منظر میں صدر پوتن کا یہ دورہ سیاسی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستان جو مصنوعات امریکہ کو بھیج رہا تھا اس کیلئے روس کوئی متبادل مارکیٹ تو نہیں بن سکتا لیکن ہندوستان اور روس کے معاشی تعاون کے معاہدے کے تحت اب ہندوستان، روس میں اپنی مصنوعات کیلئےبہت سے شعبوں میں مارکیٹ تلاش کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ ’’ہندوستان نے ۲۰؍برس میں امریکہ سے بہت گہرے اور متنوع تعلقات قائم کئے ہیں اور ہندوستان نے ان رشتوں کیلئے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔‘ ہندوستان کا امریکہ میں بہت گہرا مفاد ہے اسلئے وہ امریکہ کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہندوستان روس سے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عمل میں امریکہ سے اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہے گا۔ ماہرین کے مطابق ہندوستان روس سے اپنے تعلقات کے سلسلے میں بہت محتاط ہے ’وہ سب کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکہ یورپ اور روس کے درمیان جو کشیدگی اورتصادم ہے اس میں ہندوستان کسی ایک جانب نہیں رہسکتا۔‘اس لئے یہ دورہ ہند ۔ چین تعلقات کیلئےبھی کافی اہم ہے۔’جب سے چین سے ٹکراؤ ہوا ہے تب سے ہندوستان میں ایک ڈر رہا ہے کہ روس اور چین بہت قریب آ گئے ہیں اور یہ قربت ہندوستان کیلئے پیچیدگی پیدا کر سکتی ہے۔ ہندوستان کی کوشش ہے کہ وہ بھی کسی طرح اس کا حصہ بن سکے تاکہ وہ روس کو اپنی طرف کر سکے۔ پوتن کے دورے سے ہندوستان نے پوری دنیا میں یہ پیغام دیا ہے کہ اسکے پاس بھی متبادل موجود ہیں اور وہ کسی ایک ملک پر منحصر نہیں ہے اور نہ وہ تنہا ہے۔ادھر روس کی طرف سے بھی امریکہ اور یورپ کو پیغام دیا گیا ہے کہ اسے الگ تھلگ کرنے کی ان کی تمام کوششوں کے باوجود ہندوستان جیسے ابھرتے ملک اسکے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس دورے سے دونوں ممالک نے ’صرف ظاہری پیغامات دیئے ہیں لیکن زمین پر کوئی گہری بات نہیں ہوئی ہے۔‘