Inquilab Logo

عمر خالد کی ضمانت پر سماعت بار بار کیوں ٹل رہی ہے؟ سپریم کورٹ کواس کا احساس اتنی تاخیر سے کیوں ہوا؟

Updated: January 13, 2024, 10:26 AM IST | Asim Jalal | New Delhi

ضمانت کی عرضی پرسیشن کورٹ سے سپریم کورٹ تک کا سفر دیکھیں تو یہ ’تاریخ پہ تاریخ‘ کی افسوسناک رُوداد نظر آتی ہے، سپریم کورٹ میں ۸؍ ماہ میں ضمانت کی درخواست پر ٹھیک سے شنوائی ہی شروع نہیں ہوسکی۔

Umar Khalid has been in prison since September 13, 2020. Photo: INN
۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۰ء  سے اب تک عمر خالد قید ہیں۔ تصویر : آئی این این

۱۰؍ جنوری کو لگاتار چھٹی بار سپریم کورٹ میں عمر خالد کی درخواست ضمانت پر سماعت ملتوی ہو گئی۔ اس بار التواءکی درخواست خود عمر خالد کی پیروی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے دی تھی۔ ویسے دہلی پولیس کے وکیل بھی کورٹ میں  موجود نہیں تھے۔یعنی اگرسبل یہ درخواست نہ دیتے تب بھی سماعت کا ملتوی ہونا تقریباً طے تھا۔ بدھ ۱۰؍ جنوری کی شنوائی کا ایک مثبت پہلو یہ رہا کہ سپریم کورٹ کی دورکنی بنچ سماعت ملتوی کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ اسے اس بات کا احساس تھا کہ بار بار کے التوا کی وجہ سے یہ پیغام جارہاہے کہ عدالت اس معاملے پر شنوائی نہیں کرنا چاہتی۔
 کورٹ نے اس شرط پر یہ آخری التواء دیا ہے کہ  ۲۴؍ جنوری کو یقینی طور پر شنوائی ہوگی۔ امید ہے کہ ایسا ہی ہوگا مگر سپریم کورٹ کو یہ احساس ہونے میں کافی دیر لگ گئی کہ عمر خالد کی درخواست سماعت بار بار ملتوی ہورہی ہے۔ 
 شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں  میں  پیش پیش رہنےوالے  عمر خالدکے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ اس تحریک سے وابستگی کے بعد گرفتار ہونےو الے دیگر نوجوانوں کی طرح ان کا جرم بھی  بس یہی ہے کہ وہ سی اے اے مخالف مظاہروںکا ممتاز چہرہ تھے۔  ۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۰ء  کو ان کی گرفتاری کے بعد اپریل ۲۰۲۱ء میں ہی یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ وہ جلد جیل سے باہر آجائیں گے کیوں کہ ایف آئی آر نمبر ۱۰۱؍  میں سیشن کورٹ نے انہیں  ضمانت پررہا کرنے کا حکم سنادیاتھا۔ اب صرف  دہلی فساد کی ’’وسیع تر سازش‘‘کیس کی ایف آئی آر ۵۹؍ ہی باقی رہ گئی تھی جس پر ضمانت ملنی تھی۔اس میں انہیں انسداد دہشت گردی قانون ’یو اے پی اے‘  کے تحت ملزم بنایاگیاہے۔  جولائی ۲۰۲۱ء میں ہی عمر خالد نے سیشن کورٹ میں اس کیس میں بھی ضمانت کی درخواست داخل کردی تھی۔ ۸؍ مہینوں تک  سماعت ہوئی اور پھر سیشن کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اسے مسترد کردیا کہ کورٹ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ۲۰۲۰ء کے ’’دہلی  فساد کی سازش‘‘ میں عمر خالد ملوث تھے۔  
ٍ ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۲ء کو عمرخالد  دہلی ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے۔ ۶؍ ماہ بعد ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء   کو ہائی کورٹ  نے بھی عمر خالد کی عرضی خارج کردی جس کے بعد وہ ۶؍ اپریل کو سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے۔ اس بیچ انہیں اپنی بہن کی شادی میں شرکت کیلئے  ۷؍ دنوں کی مشروط ضمانت  پر رہائی  ضرور ملی مگر سپریم کورٹ  میں ۸؍ مہینوں میں بھی درخواست ضمانت پر سماعت  شروع نہیں  ہوسکی ۔  ۱۸؍ مئی کو یہ معاملہ پہلی  بار سپریم کورٹ میں زیر سماعت آیا۔ کورٹ نےضروری نوٹس جاری کئے۔ اگلی سماعت ۹؍ اگست کو ہوئی مگر بنچ میں شامل جسٹس پرشانت کمار مشرا نےخود کو کیس سے علاحدہ کرنے کا اعلا ن کردیا جس کے بعد سماعت ۱۸؍ اگست تک کیلئے ملتوی ہوگئی۔ ۱۸؍ اگست کو مختصر سماعت ہوئی اور پھر ۱۲؍ اکتوبر کی تاریخ مل گئی۔ ۱۲؍  اکتوبر کو معاملہ سماعت کیلئے پیش ہوا تو وقت کی قلت کی وجہ سے اسے ۲۹؍ نومبر تک کیلئے ملتوی کردیاگیا۔ ۲۹؍ نومبر کو پھر سماعت نہیں ہوسکی اور ۱۰؍ جنوری کی تاریخ ملی۔ اب ۲۴؍ جنوری کی تاریخ  دی گئی ہے۔ 
 عدالتوں میں تاریخ پہ تاریخ ملنا کوئی  خلاف معمول بات نہیں ہے تاہم ضمانت کی عرضی پر ۸؍ ماہ تک ٹھیک سے سماعت بھی شروع نہ ہوپانے پر سپریم کورٹ کی ۲؍ رکنی بنچ کا فکر مند ہونا اور مزید التواء دینے میں پس وپیش کرنا خوش آئند ہے۔ اس لئے کہ خود سپریم کورٹ کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ  عدالتوں کو ’’ضمانت معمول اور جیل استثنیٰ‘‘  کے اصول پر کام کرنا چاہئے۔ ایسے کئی معاملے ہیں جن میں اس اصول پر عمل بھی ہوتاہے، سماعت فوری ہوجاتی ہے اورضمانت بھی مل جاتی ہے۔ ارنب گوسوامی  کے معاملے کو بطور مثال  پیش کیا جا سکتا ہے۔کورٹ کے تازہ رویے سے امید کی جاسکتی ہے کہ اب عمرخالد کی ضمانت پر سماعت مزید ملتوی نہیں ہوگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK