Inquilab Logo

میں ایک فائٹر ہوں اور لڑکر جیتنے میں یقین رکھتی ہوں

Updated: December 17, 2021, 1:16 PM IST | Agency | Mumbai

ٹوکیو اولمپک میں کانسے کا تمغہ جیتنے والی ہندوستانی مکے باز لولینا بورگوہائی ابھی سے پیرس اولمپک کی تیاریوں میں مصروف

Lovlina Borgohain.Picture:INN
ہندوستانی مکے باز لولینا بورگوہائی۔ تصویر: آئی این این

ہندوستان کی خاتون مکے باز لولینا بورگوہائی کا کہنا ہے کہ وہ ٹوکیو اولمپک میں کانسے کا تمغہ جیتنے سے مطمئن نہیں ہیںبلکہ ۲۰۲۴ء کے پیرس اولمپک میں اپنے میڈل کا رَنگ بدلنے کی کوشش کریں گی۔او پی وشسٹ نے ہندوستان کی اس اسٹار باکسر سے بات چیت کی جو اس طرح ہے
ٹوکیو اولمپک میں تمغہ جیتنے کے بعد زندگی میں کتنی تبدیلی آئی؟
 کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے مجھ میں۔ٹوکیو اولمپک میں ملک کےلئے کانسے کا تمغہ جیتنے سے قبل بھی میں ایک مکے باز تھی اور اب بھی ایک مکے باز ہوں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ملک کے عوام اب مجھے جاننے لگے ہیں۔پہلے مجھے کوئی جانتا نہیں تھا لیکن اب میں جہاں بھی جاتی ہوں مجھے  عزت دی جاتی ہے۔لوگ میرے ساتھ سیلفی لینے کی خواہش کرتے ہیں۔مجھے کافی اچھا محسوس ہوتا ہے۔ٹوکیو اولمپک میں میڈل جیتنے کے بعد اب لوگوں کی مجھ سے امیدیں بڑھ گئی ہیں اور میں ان کی امیدوں پر پورا اترنے کی کوشش میں ابھی سے لگ گئی ہوں۔اب میرا ساری توجہ پیرس اولمپک پر مرکوز ہیں اور میں وہاں اپنے میڈل کا رنگ تبدیل کرنے کی کوشش کروںگی۔
روہتک میں پہلی بار آئی ہیں یا پہلے بھی آچکی ہیں؟
 روہتک میں میں دوسری مرتبہ آئی ہوں۔۲۰۱۸ء میں سائی سینٹر میں منعقدہ ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے یہاں آئی تھی۔ ہمارے یہاں  زیادہ سہولت نہیں تھی۔ہریانہ کھیل کے شعبہ میں کافی بہتر ریاست ہے۔یہاں کھلاڑیوں کو جو سہولیات ملتی ہیں وہ دیگر ریاست میں بھی مل جائے تو ملک کے نوجوان کھیلوںمیں مزید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
کک باکسنگ سے مکے بازی میں کیسے آنا ہوا؟
 میری والدہ چاہتی تھیں کہ ہم تینوں بہنیں سیلف ڈفینس میںماہر ہوں۔ہم مائی تھائی کی ٹریننگ حاصل کرتے تھے جو ایک طرح کا مارشل آرٹ ہے۔یہ کک باکسنگ اور مکے بازی سے ملتا جلتا کھیل ہے۔کک باکسنگ میں میں نے کبھی شرکت نہیں کی۔جب میں ۹؍ویں جماعت میں تھی تو ایک دن اسکول میں کھیل سے تعلق رکھنے والے افسران اسکول آئے تھے۔انہوںنے مجھے دیکھا اور مکے بازی پر توجہ مرکوز کرنے کےلئے کہا۔میں نے مکے بازی کا نام سناتھا۔جب مجھے پتہ چلا کہ مکے بازی کے مقابلے اولمپک میں بھی ہوتے ہیں تو میں نے اس کھیل کو سنجیدگی سے لیا اور آج میں آپ لوگوں کے سامنے ہوں۔
اروندھتی نے عالمی چمپئن شپ کے ٹرائل کے تعلق سے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔آپ اس تعلق سے کیا کنا چاہتی ہیں؟
 ٹوکیو اولمپک میں میڈل جیتنے کے بعد ملک میں مجھے کافی عزت ملی ہے۔مجھے ملک کے کئی حصوں میں جانا پڑا تھا جس کی وجہ سے پریکٹس متاثر ہوئی تھی۔انڈین باکسنگ فیڈریشن نے مجھے قومی چمپئن شپ میں نہ کھیلنے کی چھوٹ دی تھی۔عالمی چمپئن شپ کےلئے اب ٹریننگ شروع کردی ہے۔ٹرائل مقابلوں میں شرکت سے چھوٹ دینے کا فیصلہ فیڈریشن کا تھا۔آئندہ بھی فیڈریشن جو فیصلہ کرےگا وہ مجھے منظور ہوگا۔میں بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ میں ایک فائٹر ہوں اورفائٹ کرنے میں ہی یقین رکھتی ہوں۔
مشرقی  ہند میں کھیل زیادہ ترقی کیوں نہیں کرسکا؟
 شمالی ہند کے مقابلے ہمارے یہاں کھیل کی سہولیات نہ کے برابر ہیں۔ہریانہ کی بات کی جائے تو یہاں کھلاڑیوں کو بہتر سہولیات مل رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسے کھیل ہب کے نام سے جانا جاتا ہے۔جہاں تک میرے میڈل جیتنے کی بات ہے تو حکومت نے میرے نام سے ایک اسٹیڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے جو میرے لئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔امید ہے کہ یہاںآنے والے کھلاڑیوں کو سہولیات ملیں گی اور وہ کھیل کی جانب سنجیدگی سے توجہ دیںگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK