Inquilab Logo

ملکھا سنگھ نے زندگی کے ہر چیلنج کو خوشی خوشی قبول کیا تھا

Updated: June 20, 2021, 7:13 AM IST

ملکھا سنگھ جو اکثر سب سے مسکراکرملتے تھے ، اندر سے بہت سنجیدہ انسان تھے۔ ملکھا سنگھ خود بتایا کرتے تھے کہ ان کی زندگی پر بننے والی بالی ووڈ کی فلم ’بھاگ ملکھا بھاگ‘ میں بھی ان کی زندگی کی ۵؍ فیصد جدوجہد بھی نہیں دکھائی گئی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ آپ دو تین گھنٹے کی فلم میں زندگی بھر کی جدوجہد بیان نہیں کرسکتے ہیں۔ ہر دن میرے لئے چیلنج رہا ہے

Milkha Singh.Picture:INN
ملکھا سنگھ تصویر آئی این این

 ملکھا سنگھ   جو اکثر سب سے مسکراکرملتے تھے ، اندر سے   بہت سنجیدہ انسان تھے۔ ملکھا سنگھ خود بتایا کرتے تھے کہ ان کی زندگی پر بننے والی بالی ووڈ کی فلم ’بھاگ ملکھا بھاگ‘ میں بھی ان کی زندگی کی ۵؍ فیصد جدوجہد بھی نہیں دکھائی گئی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ آپ دو تین گھنٹے کی فلم میں زندگی بھر کی جدوجہد بیان نہیں کرسکتے ہیں۔ ہر دن میرے لئے چیلنج رہا ہے۔ بچپن میں  میرے گھر والے میرے سامنے ہی قتل کئے گئے تھے، بچپن سے جوانی تک  میں غربت کا شکار تھا۔ اس کے باوجود میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری   ، ہر چیلنج کو خوشی خوشی قبول کیا اور محنت سے اپنی قسمت بدل دی۔
کھیل کا سفر
 فلائنگ سکھ پدم شری ملکھا سنگھ کہا کرتے تھے کہ میرا بچپن اور جوانی ایسے ماحول میں گزرا کہ مجھے ایتھلیٹکس کے ہجے بھی نہیں معلوم تھے۔ فوج میں شمولیت کے بعدمجھے اچھے کوچ ملے اور انہوںنے میری ایسی تربیت کی کہ  میرے نام کے ساتھ فلائنگ بھی لگ گیا۔ ملکھا سنگھ نے۱۹۵۸ء میں ایشین گیمز میں ۲۰۰؍ میٹر  (۲۱ء۶؍سیکنڈ) اور۴۰۰؍میٹر ( ۴۶ء۶؍ سیکنڈ) کھیلوں میں اپنے کریئر میں طلائی تمغے جیتے تھے۔ ۱۹۵۸ء دولت مشترکہ کھیلوں میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔ ۱۹۶۲ء ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔ ملکھا سنگھ روم اولمپکس میں چوتھے نمبر پر رہے تھے۔
جب ملکھا کمزور پڑنےلگے 
 ملکھا سنگھ اپنی زندگی کے سفر کے بارے میں بتاتے تھے کہ ان کی دوڑ ہمیشہ مشکل رہی  ہے ، پھر بھی انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی اور آنسو نہیں بہائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میری زندگی میں صرف ۵؍ایسے واقعات ہوئے ہیں جب میں اپنی آنکھوں سے آنسو نہیں روک پایاتھا۔ ۱۹۴۷ء میں تقسیم کے دوران پہلی بارجب کنبہ کے افراد میری آنکھوں کے سامنے مارے گئے ، میں  بہت رویا تھا۔ ۱۹۶۰ء میں دوسری بار جب  روم اولمپکس میں میڈل جیتنے سے محروم ہوگیا تھا تب رویا تھا۔ تیسری بار پاکستان میں رنر عبدالباسط کو شکست دینے کے بعد بھی بہت رویا تھا۔ جیتنے کے باوجود  پارٹیشن کا سارا درد ایک بار پھر میری آنکھوں کے سامنے تھاحالانکہ یہ خوشی کے آنسوتھے لیکن میرے لئے یہ آسان نہیں تھا۔ جب میں نے  ۱۹۵۸ء میں دولت مشترکہ کھیلوں میں طلائی تمغہ جیتا تھا ، تب بھی میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ پچھلی بار جب ۲۰۱۳ء میں فلم ’بھاگ ملکھا بھاگ‘  دیکھی تواس وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس فلم میں اپنی زندگی کے اہم لمحات کو پردے پر دیکھ کر میں جذباتی ہوگیا۔ اس کے علاوہ  مجھے اپنی زندگی میں جو بھی ملا اسے خوشی خوشی قبول کیا۔ 
ملکھا سنگھ نے کھیل کیلئے اپنی زندگی وقف کردی 
  فلائنگ سکھ کے نام سے مشہور  ملکھا  سنگھ کی پوری زندگی کھیلوں سے وابستہ رہی تھی۔ انہوں نے پہلے ملک کے لئے تمغے جیتے اور اس کے بعد مختلف  پلیٹ فارمس سے کھیلوں اور کھلاڑیوں کی مدد کی ۔ صرف یہی نہیں کچھ دن پہلے ملکھا سنگھ نے ٹوکیو اولمپکس ۲۰۲۰ء میں تمغہ جیتنے کے بارے میں ایتھلیٹ ہما داس کو مشورے بھی دیئے تھے۔  ملکھا سنگھ نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ میں خود۴۰۰؍ میٹر ریس کا رنر رہا ہوں ، اسی وجہ سے میں نے فون پر ہما ​​داس کو تیاری  کے بارے میں مشورے دیئے ہیں۔ صرف یہی نہیں  میں نے ہما داس کے کوچ سے بھی بات کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ اولمپکس کے لئے  انہیںکس طرح تیار کیا جائے۔ 
 ملکھا سنگھ کہتے تھے کہ آج ملک میں کھیلوں کی بہتر سہولیات موجود ہیں،ہمارے زمانے میں سہولیات موجود نہیں تھیں، اس کے باوجود ہم نے پوری کوشش کی۔ اب تمام سہولیات مہیا کی جارہی ہیں ، اس کے بعد کھلاڑیوں سے میڈلس کی توقع کی جاسکتی ہے۔
پدم  شری حاصل کرنے والے اکلوتے باپ بیٹے
 ملکھا سنگھ اور ان کے بیٹے جیو ملکھا سنگھ  کو کھیلوں کی کامیابیوں پر پدم  شری ایوارڈ ملا ہے اور یہ اکلوتے باپ بیٹے ہیں جنہوں نے یہ کارنامہ انجام د یاتھا۔ ملکھا سنگھ کے بیٹے جیو ملکھا سنگھ  بین الاقوامی سطح کے گولفر ہیں۔
پورا خاندان کھیل کے لئے وقف تھا 
 ملکھاسنگھ کا پورا خاندان کھیلوں سے  وابستہ رہا ہے۔ ان کی اہلیہ نرمل کور  ​​ہندوستانی خواتین والی بال ٹیم کی سابق کپتان ہیں۔ ان کی ۳؍ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ جیو ملکھا سنگھ ایک بین الاقوامی سطح کے گولفر ہیں۔ ملکھا سنگھ کی بیٹی سونیا نے اپنی سوانح عمری دی ریس آف مائی لائف لکھی ہے۔
 ملکھا سنگھ مکھن سنگھ سے خوفزدہ تھے 
 ۱۹۶۲ء میں کولکاتامیں منعقدہ قومی کھیلوں میں مکھن سنگھ نے ملکھا سنگھ کو بری طرح شکست دی۔ مکھن نے ۶؍ سال تک اپنے کریئر میں ۱۲؍ سونے، ایک چاندی اور۳؍ کانسہ کے تمغے جیتے۔ملکھاسنگھ نے ایک انٹرویو میں بھی اعتراف کیا تھا ’’`اگر میں ریس میں کسی سے ڈرتا ہوں تو وہ مکھن سنگھ تھا۔ وہ ایک بہترین رنر تھا۔ میں نے  ۱۹۶۲ء میں ہونے والے قومی کھیلوں کے بعد اتنی تیز ۴۰۰؍میٹر دوڑ کبھی نہیں دیکھی۔ میں مکھن کو پاکستان کے عبد الخالق سے بھی اوپر سمجھتا ہوں۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK