Inquilab Logo

سلیم درانی تماشائیوں کی فرمائش پر چھکا لگایا کرتے تھے

Updated: April 02, 2024, 10:35 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

 سلیم درانی ایک ایسے ذہین کھلاڑی تھے جن کے تعلق سے یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ کب کیسا کھیلیں گے۔ وہ کبھی اپنے بیٹ تو کبھی اپنے بال کی مدد سے ٹیم کو میچ جتا دیتے تھے۔

Salim Durrani used to make the team win with batting or bowling. Photo: INN
سلیم درانی بیٹنگ یا بائولنگ سے ٹیم کو جتا دیتے تھے۔ تصویر : آئی این این

 سلیم درانی ایک ایسے ذہین کھلاڑی تھے جن کے تعلق سے یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ کب کیسا کھیلیں گے۔ وہ کبھی اپنے بیٹ تو کبھی اپنے بال کی مدد سے ٹیم کو میچ جتا دیتے تھے۔ وہ ان چند کرکٹرز میں سے ایک تھے جو ایک اوور میں چند خطرناک شاٹس سے یا محض دو وکٹوں سے میچ کا رخ موڑ سکتے تھے۔ 
 بائیں ہاتھ کےایک جارحانہ بلے باز، جو بہترین گیند بازوں کوپچھاڑ سکتے تھے اورلوگوں کے مطالبہ پرچھکےمارسکتے تھے، اسی بات سے انہوں نے شہرت حاصل کی تھی۔ درانی کو کھیلتے ہوئے دیکھ کر دیکھنے والا جوش سے بھر جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے سب سے پہلےایک باؤلر کےطور پر ہندوستانی کرکٹ میں اپنی شناخت بنائی۔ 
 سلیم عزیز درانی۱۱؍دسمبر۱۹۳۴ءکو پیدا افغانستان میں ایک پشتون خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۳ء تک ہندوستان کے لیے ۲۹؍ٹیسٹ میچ کھیلے۔ وہ ایک دھیمے لیفٹ آرم آرتھوڈوکس گیند باز تھے۔ ان کی شہرت چھکے لگانےکی تھی جو بائیں ہاتھ کے بلے باز کی نماِیاں خوبی ہوتی ہے۔ وہ واحد ہندوستانی ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی تھےجو افغانستان میں پیدا ہوئے۔ 
 سلیم درانی۶۲۔ ۱۹۶۱ءمیں انگلینڈ کے خلاف سیریز میں ہندوستان کی فتح کے ہیرو تھے۔ انھوں نےکولکتہ اور چنئی میں بالترتیب ۸؍ اور ۱۰؍وکٹ حاصل کئے۔ ایک دہائی کے بعد، پورٹ آف اسپین میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہندوستان کی فتح کیلئے میں کلیو لائیڈ اور گیری سوبرس کے وکٹ حاصل کرکے ویسٹ اینڈیز کے خلاف ہندوستان کو پہلی مرتبہ جیت دلائی۔ اپنی ۵۰؍ٹیسٹ اننگزمیں، انھوں نے ۱۹۶۲ء میں ویسٹ انڈیزکےخلاف صرف ایک سنچری (۱۰۴) بنائی تھی۔ وہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں گجرات، راجستھان اور سوراشٹرا کے لیے کھیلتے تھے۔ انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں ۱۴؍ سنچریاں بنائیں جس میں وہ۳۳ء۳۷؍کے اوسط پر ۸۵۴۵؍ رنزبناسکے۔ انہیں واحد کرکٹ کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو بھیڑ کی طرف سے ایک چھکا لگانے کے مطالبے کا جواب دیتے تھے۔ بھیڑ خوش ہوکر کہتی، ’ہمیں چھکا چاہیے!‘اور درانی چھکا مارتے۔ درانی کاتماشائیوں کے ساتھ ایک خاص رشتہ تھا۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ ۱۹۷۳ء میں جب انہیں کانپور ٹیسٹ کے لیے ٹیم سے نکال دیا گیا تھا تو تماشائی مشتعل ہو گئے تھے جب نعرے لگائے گئے تھے ’اگر درانی نہیں تو، ٹیسٹ میچ بھی نہیں !‘
وہ ۱۴؍جون ۲۰۱۸ءکومیں ہندوستان بمقابلہ افغانستان ہوئے تاریخی ٹیسٹ میچ کے دوران بھی موجودتھے۔ انھوں نے ۱۹۷۳ء میں پروین بابی کے ساتھ ایک فلم چَرِترام بھی کی تھی۔ وہ ارجن ایوارڈ جیتنے والےپہلےکرکٹ کھلاڑی تھے۔ انھیں بی سی سی آئی نے ۲۰۱۱ء میں سی کے نائیڈو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK