EPAPER
Updated: February 17, 2024, 11:00 AM IST | Mala Kumar | Mumbai
’’داداجی میں نے اس خط پر ’’ضرور‘‘ لکھا تھا، ۔ ریتو نے خوش ہوکر کہا۔ داداجی نے کہا: ’’تمہارے اُس خط میں ۲۰؍ جگہوں پرضرور ضرور اور جلدی جلدی لکھا تھا۔‘‘ ریتو سمجھ نہیں پائی کہ اس نے ایک جگہ جو ضرور لکھا تھا وہ ۲۰؍ جگہوں پر کیسے لکھا گیا، مگر وہ بہت خوش تھی۔
دادا جی خط لکھ رہے تھے۔ ریتو ایک پرانی سی کرسی کے بازو سے ٹیک لگا کر ان کے پاس کھڑی تھی۔
’’داداجی، کیا آپ نے چاچی کو لکھ دیا ہے کہ وہ مانی کو چھٹیوں میں ہمارے یہاں بھیج دیں ؟‘‘
’’ہاں ریتو، دیکھو میں تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں کہ میں نے تمہاری چاچی کو کیا لکھا ہے :
پیاری پوجا، امید ہے تم خیریت سے ہوگی۔ مانی کی چھٹیاں اب شروع ہوگئی ہوں گی؟ ریتو اس سے ملنے کے لئے بہت بے تاب ہے۔ اسے یہاں تُمکُر بھیج دو۔ ‘‘
ریتو یہ سن کر خوشی سے پھولے نہ سمائی اور مارے خوش کے اچھلنے کودنے لگی۔ پورے کمرے میں ادھر سے ادھر اچھلنے کے بعد وہ داداجی کے پاس آئی اور ان سے لپٹ گئی۔
’’تم جا کر یہ خط ڈال آؤگی کیا؟‘‘ داداجی نے پوچھا۔
’’میں ؟‘‘ ریتو کی آنکھوں میں چمک سی آگئی۔ ’’ہاں، میں جا کر ڈال آؤں گی یہ خط۔ ‘‘
’’ہاں، پیاری ریتو، میں نے خط کے اوپر پتہ لکھ دیا ہے۔ تم ڈاک گھر جاؤ اور یہ خط رمیش چاچا کو دے آؤ۔ تم ان کو جانتی ہو نا؟ وہی لمبی لمبی مونچھوں والے چاچا۔ ‘‘
’’جانتی ہوں داداجی۔ یہ وہی چاچا ہیں جنہوں نے پچھلی گرمیوں میں مانی کو سائیکل چالانا سکھایا تھا۔ لیکن کیا وپ اس خط کو پوجا چاچی تک پہنچا دیں گے؟‘‘
’’ارے نہیں میری بچی، لیکن تم فکر نہ کرو، یہ خط تمہاری چاچی تک پہنچ جائے گا۔ ‘‘
ریتو نے اپنا گلابی رنگ کا چھوٹا سا بستہ اٹھایا۔ خط اس کے اندر رکھا۔ ایک پینسل بھی اس کے اندر رکھ دی اور نکلنے کی تیاری کرنے لگی۔ وہ خود کو بہت اہم سمجھنے لگی۔ اسے لگا کہ وہ بہت بڑی ہوگئی ہے۔ حالانکہ وہ تھوڑی خوفزدہ بھی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر باغیرہ نام کے کتے نے اس کا پیچھا کیا تو وہ کیا کرے گی؟
مگر وہ جلد سے جلد خط کو پہنچانا چاہتی تھی اس لئے ڈاک گھر کی طرف چل پڑی جو ان کے مکان سے تھوڑی ہی دوری پر تھا، صرف چار مکان کی دوری پر۔ چند قدم جانے کے بعد ریتو رُکی اور اپنے بستے سے خط نکال کر پڑھنے لگی۔ مگر وہ داداجی کی تحریر کو ٹھیک سے پڑھ نہیں پارہی تھی۔ اب وہ یاد کرنے لگی کہ داداجی نے جب اسے پڑھ کر سنایا تھا تو انہوں نے کیا کہا تھا۔ پھر خط کے اوپر ایک جگہ تُمکر لکھا ہوا معلوم پڑا۔ اس نے اس کے آگے ’’پلیز‘‘ لکھ دیا۔ یہ لکھ کر اسے عجیب سی مسرت کا احساس ہوا اور وہ ڈاک گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔
دوسرے مکان تک پہنچ کر ریتو نے دوبارہ خط کھولا اور اسے پڑھنے لگی۔ اسے خیال آیا کہ اگر پوجا چاچی یہ بات سمجھ نہیں سکی کہ مجھے مانی سے ملنے کی کتنی زبردست خواہش ہے تو کیا ہوگا؟ اس نے دوبارہ پینسل نکالی اور خط پر ’’ضرور‘‘ لکھ دیا۔
لفافہ دوبارہ بند کرکے وہ ڈاک گھر کے پاس پہنچ گئی۔ یہاں اسے ایک لال رنگ کا لیٹر بکس نظر آیا۔ وہ خود ہی اس میں خط ڈالنا چاہ رہی تھی مگر اس کا منہ اتنا اوپر تھا کہ اس کا ہاتھ کسی بھی صورت وہاں تک پہنچ نہیں پارہا تھا۔ اپنے پنجوں پر کھڑے ہوکر اس نے کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔
وہ بڑے اعتماد کے ساتھ رمیش چاچا کے پاس گئی۔ اس نے بیگ سے خط نکال کر انہیں دیا۔ رمیش چاچا نے مسکراتے ہوئے خط لے لیا ’’ارے وہا، تم تو بڑی سمجھدار بچی ہو، شاباش۔ اب تم گھر واپس چلی جاؤ مگر سنبھل کر جانا۔ میں یہ خط تمہاری چاچی تک پہنچوا دوں گا۔ ‘‘ مگر ریتو وہاں سے نہیں۔ اس نے دیکھا کر رمیش چاچا نے ایک قلم نکالا اور خط پر کچھ لکھ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے یہ خط ڈاکیہ کو دیا جو دوسری چٹھیوں پر مہر اور ڈاک کے نشان لگا رہا تھا۔ ٹھپ…ٹھپ… ٹھپ… وہ مہر لگاتا رہا۔ جب اس نے ریتو کا خط دیکھا تو وہ رک گیا، مسکرایا اور اپنے کان پر رکھی پینسل نکال کر خط پر کچھ لکھ دیا۔
پانچ دن گزر گئے۔ ڈاکیہ ایک جوابی خط لے کر داداجی کے پاس آیا۔ داداجی نے مسکراتے ہوئے اس خط کو پڑھا۔ ’’ریتو، یہ تمہاری چاچی کا خط ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ پرسوں مانی کو یہاں بھیج رہی ہیں، آؤ میں تمہیں خط پڑھ کر سناتا ہوں :
’’ابا جان… تارار ارادا …دادا… تادا … دادادا
میں مانی کو کل بھیج رہی ہوں۔ وہ جمعہ کو تمکر پہنچ جائے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ریتو اس سے ملنے کے لئے بہت بے چین ہورہی ہوگی۔ آپ کا خط نہایت دلچسپ تھا۔ ‘‘
’’داداجی میں نے اس خط پر ’’ضرور‘‘ لکھا تھا، اس لئے ریتو نے خوش ہوکر کہا۔
’’تمہارے اُس خط میں ۲۰؍ جگہوں پرضرور ضرور اور جلدی جلدی لکھا تھا۔ ‘‘ ریتو سمجھ نہیں پائی کہ اس نے ایک جگہ جو ضرور لکھا تھا وہ ۲۰؍ جگہوں پر کیسے لکھا گیا، مگر وہ بہت خوش تھی۔ (ترجمہ : بی این بے تاب۔ مصور:ہینو)