Inquilab Logo

کیا جے این یو کےسابق طلبہ لیڈر اِس بار لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرکےتاریخ رقم کر پائیں گے؟

Updated: April 21, 2024, 5:03 PM IST | Mumbai

یہ شاید پہلا موقع ہے جب ملک بھر میں تین مختلف حلقوں سے جے این یو کے تین سابق طلبہ لیڈر کنہیا کمار، سندیپ سورو اوردپستا دھر لوک سبھا کیلئے امیدوار ہیں۔

Kanhaiya Kumar. Photo: INN
کنہیا کمار۔ تصویر : آئی این این

ملک کے بیشتر تعلیمی اداروں میں سیاسیات کی تعلیم دی جاتی ہے، سیاست کے عملی مظاہرے بھی ہوتے ہیں، مختلف سیاسی جماعتوں کی طلبہ انجمنوں کی شاخیں بھی قائم ہیں اور وہاں پر انتخابی گہماگہمی بھی ہوتی ہے لیکن ان تمام معاملات میں جو امتیاز جے این یو کو حاصل ہے، وہ کسی اور تعلیمی ادارے کو میسرنہیں۔ یہاں کے طلبہ لیڈر سیاسی میدان میں آتے ہیں تو وہ وہاں پر اپنا سکہ جمانے اور اپنی موجودگی درج کرانے میں کامیاب رہتے ہیں لیکن حیرت کا مقام ہے کہ یہی طلبہ لیڈر جب لوک سبھا انتخابات کیلئے میدان میں اُترتے ہیں تو انہیں کامیابی نہیں مل پاتی۔ اس مرتبہ تین مختلف حلقوں سے جے این یو کے تین سابق طلبہ لیڈر کنہیا کمار، سندیپ سورو اوردپستا دھر لوک سبھا کیلئے امیدوار ہیں اور امید ہے کہ اس بار کامیابی حاصل کرکے ایک تاریخ مرتب کریں گے۔ 
 اس سے قبل کہ ہم کنہیا کمار، سندیپ سورو اور دپستا دھر پرگفتگو کریں ، پہلے اُن لیڈروں کاسرسری تذکرہ کرلیں جوجے این یو کے لیڈر رہے ہیں اور ودھان سبھا، ودھان پریشد اور راجیہ سبھا کے رکن رہے ہیں یا پھر انتخابی سیاست سے دو ر رہ کر بھی قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ان میں پہلا نام ڈی پی ترپاٹھی کا ہے جو ۱۹۷۵ء میں جے این یو طلبہ لیڈر کے صدر رہے ہیں اور۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۸ء تک مہاراشٹر سے این سی پی کے راجیہ سبھا رکن بھی رہے ہیں ۔ اس فہرست میں ایک بڑا نام سیتا رام یچوری کا ہے جو ۲۰۰۵ء سے ۲۰۱۷ء تک مغربی بنگال سے سی پی ایم کے راجیہ سبھا ممبر رہے ہیں۔ ۱۹۷۶ء میں پرکاش کرات نے طلبہ یونین کاالیکشن جیتا تھا۔ انہوں نے قومی سیاست میں اہم کردار نبھایا لیکن خود الیکشن جیت کر اسمبلی یا لوک سبھا میں نمائندگی نہیں کی۔ ۱۹۹۱ء میں تنویر اختر جے این یو طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے بہار یوتھ کانگریس کے صدر کے طور پر اپنا سیاسی کریئر شروع کیا تھا لیکن بعد میں جے ڈی یو سے وابستگی اختیار کرلی جس کا انہیں بہار ودھان پریشد کی رکنیت کے طور پر انعام بھی ملا۔ 

یہ بھی پڑھئے: محمد طارق غازی: میں اپنے عہد کا جدت طراز ہوں

اس فہرست کاایک بڑا نام شکیل احمد خان کا ہے۔ ’اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا‘ کے امیدوار کے طور پر ۱۹۹۲ء میں وہ جے این یو طلبہ یونین کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ جے این یو سے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر شکیل احمد خان نے ۱۹۹۹ء میں کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور فی الحال کانگریس پارٹی کے قومی سیکریٹری کے ساتھ ہی بہار اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔ سید ناصرحسین کا تعلق بھی ’اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا‘ سے تھا۔ ۱۹۹۹ء میں طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ ۲۰۱۸ء میں کانگریس نے انہیں کرناٹک سے راجیہ سبھا بھیجا۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن کے ساتھ ہی کانگریس سربراہ ملکارجن کھرگے کے دفتر سے بھی ان کی وابستگی ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی طلبہ لیڈر آئشی گھوش ۲۰۱۹ء میں اسٹوڈنٹس یونین کی سربراہ بنیں۔ ۲۰۲۱ء میں ، مغربی بنگال اسمبلی الیکشن میں سی پی ایم کے امیدوار کے طورپر الیکشن لڑا تھا لیکن ترنمول کانگریس کے امیدوار سے شکست کھا گئیں۔ 
 یہ وہ تمام لیڈر ہیں جنہوں نے قومی سیاست میں نام تو کمایا لیکن کبھی لوک سبھا کے رکن نہیں بن سکے۔ ان کے علاوہ جے این یو طلبہ یونین کے دیگر عہدیداران میں سے بھی کوئی لوک سبھا تک نہیں پہنچ سکا۔ اب جبکہ ایک ساتھ جے این یو طلبہ یونین کے تین سابق عہدیداران قسمت آزمائی کر رہے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ شاید ایک تاریخ مرتب کرسکیں۔ 
 کنہیا کمار(شمال مشرقی دہلی)
 ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات کیلئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ یونین کے سابق سربراہ کنہیا کمار شمال مشرقی دہلی حلقے سے کانگریس کے امیدوار ہیں ۔ ان کا مقابلہ بی جے پی لیڈر اوربھوجپوری اداکار منوج تیواری سے ہے۔ کنہیا کمار نے۲۰۱۹ء میں بہار کے اپنے آبائی حلقےبیگوسرائے سیٹ سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا تھا، لیکن وہ بی جے پی سے ہار گئے تھے۔ اُس وقت انہوں نے سی پی آئی کے نشان پر الیکشن لڑا تھا۔ کنہیا فی الحال کانگریس کی طلبہ ونگ ’این ایس یو آئی‘کے انچارج ہیں ۔ انتخابی مساوات کنہیا کمار کے حق میں ہے کیونکہ یہاں ۲۱؍ فیصد مسلم ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد دلتوں کی ہے۔ اس لوک سبھا کے تحت آنے والے ۱۰؍ اسمبلی حلقوں میں سے بی جے پی کو صرف ۳؍ سیٹوں پر کامیابی ملی تھی جبکہ۷؍ سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کا قبضہ ہے جو اس الیکشن میں کانگریس کی اتحادی ہے۔ 
 سندیپ سوربھ (نالندہ، بہار)
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے سابق جنرل سکریٹری سندیپ سوربھ بہار کی نالندہ سیٹ پر’انڈیا‘اتحاد کی طرف سے سی پی آئی (مالے) کے امیدوار ہیں ۔ وہاں پر اُن کا مقابلہ جے ڈی یو کے موجودہ رکن پارلیمان کوشلیندر کمار ہوگا۔ جے این یو سے پی ایچ ڈی کرنےوالے ڈاکٹر سندیپ سوربھ فی الحال پالی گنج حلقے سے رکن اسمبلی ہیں۔ ۲۰۲۰ء کے الیکشن میں انہوں نے بھاری فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔ نالندہ کو جے ڈی یو کا ایک مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا ہے، یہاں کی نمائندگی نتیش کمار اور جارج فرنانڈیز بھی کرچکے ہیں لیکن آج کے تبدیل شدہ حالات میں جے ڈی یو بہت زیادہ مضبوط نہیں کہا جاسکتا۔ بہار ٹیچر سنگھرش مورچہ کے کنوینر رہ چکے سندیپ کو کافی عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ نالندہ لوک سبھا میں ۷؍ اسمبلی سیٹیں ہیں ، جن میں سے۵؍ جے ڈی یو، ایک آر جے ڈی اور ایک بی جے پی کے پاس ہے۔ 
 دِپستا دھر (سیرام پور، مغربی بنگال)
جے این یو میں ’ایس ایف آئی‘کی سابق صدر رہیں دپستا دھر مغربی بنگال کی سیرام پور لوک سبھا سیٹ سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ یہ سیٹ ترنمول کانگریس کا گڑھ سمجھا جاتا ہےجہاں سےٹی ایم سی کے مضبوط لیڈر کلیان بنرجی ایم پی ہیں اوراس بار امیدوار بھی ہیں۔ اس حلقے میں مسلم آبادی ۱۹؍ فیصد اور دلت آبادی ۱۶؍ فیصد ہے۔ دپستا ۲۰۲۱ء میں بالی گنج حلقے سے اسمبلی الیکشن بھی لڑ چکی ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ سیرام پور میں فی الحال سی پی ایم کی پوزیشن اچھی نہیں ہے لیکن ۲۰۱۴ء سے پہلے اس حلقے میں سی پی ایم کاایک اچھا ووٹ بینک تھا۔ دپستا کی شہرت ایک تیزطرار لیڈر اور موٹیوشنل اسپیکر کی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK