EPAPER
طلبہ و نوجوانوں کیلئے موثر اندازِ گفتگو کی اہمیت و افادیت
November 30, 2023, 6:05 am IST
ملک کی آزادی سے قبل سات سال کا وقت جدید بھارت کی تاریخ کا اہم ترین دور رہا ہے۔جب وقت کو بدل دینے والے بڑے بڑے فیصلہ کن واقعات پیش آرہے تھے۔کانگریس جدو جہد آزادی کی اصل نمائندہ تنظیم تھی اور مولانا ابوالکلام آزاد ۱۹۳۹ء سے ۷؍ جولائی ۱۹۴۶ء تک اس کے منتخب صد ر تھے۔
November 24, 2023, 6:02 am IST
صبر والے سکون میں رہتے ہیں کیونکہ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین سے نوازے گا۔
November 06, 2023, 5:57 am IST
تعزیرات ہند کی دفعہ 124-A یعنی”ملک سے بغاوت اور غداری“ کو ختم کرنے کیلئے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن زیر سماعت ہے جس پر عدالت عالیہ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنر ل آف انڈیا تشار مہتا نے سپریم کورٹ کو کہا کہ موجودہ قانون کو ختم کرنایا اس میں ترمیم کرنا ضروری نہیں ہے-
November 26, 2023, 7:17 am IST
’’بے باک کلیکٹیو‘‘ مشہور سماجی ادارہ ہے جس نے بڑی جانفشانی کے ساتھ یہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ مسلم مخالف سیاسی و سماجی ماحول کس طرح مسلمانوں کو ہراساں کرتا ہے اور اس کے کیا اثرات اُن کی ذہنی صحت پر مرتب ہوتے ہیں ۔
November 20, 2023, 7:07 am IST
پہلی صدی ہجری خاتمہ پرہے آفتابِ نبوت ﷺکو نظرو ں سے غروب ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا اس کی روشن کرنیں دور دور تک پھیل کر انسانیت کوسچی راہ دکھارہی ہیں بعض آنکھیں اب بھی موجود ہیں۔
November 14, 2023, 3:20 am IST
مرحوم ایس ایم اے کاظمی کو سوچتا ہوں تو یقین نہیں آتا کہ وہ اب اس دُنیا میں نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابھی فون آجائیگا کہ کہاں ہو، کیا کررہے ہو، چلو فلاں جگہ جانا ہے، دیکھو کچھ لوگ آئے ہیں تمہیں یاد کررہے ہیں، وغیرہ۔
November 22, 2023, 7:44 am IST
دادا جان (حضرت سیماب اکبرآبادی) کے انتقال کے وقت میری عمر ۵؍ یا ۶؍ سال کی تھی لہٰذا اُن کے بارے میں بہت سی باتیں آنکھوں دیکھی نہیں ہیں بلکہ کانوں سنی ہیں۔ اکثر باتیں والد صاحب (مرحوم اعجاز صدیقی) کی زبانی سنی ہیں۔
November 16, 2023, 3:01 am IST
ہمارے پر دادا (میری دادی کے والد) نوح ناروی نے غزل کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے جن کی زبان دانی مسلّم تھی۔
November 10, 2023, 2:51 am IST
ظالم و جابر طاغوتی طاقت کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ اور بارودی اسلحہ کی ہولناک تباہ کاریوں کے نتیجے میں خطّہ فلسطین خاک و خون میں نہایا ہواہے۔ہر پل ،ہر آن ایک نئی قیامت کاسامنا کر رہےبے قصور نہتے عوام ،لہو لہان معصوم بچےساری دنیا کی نگاہوں کا مرکزتو ہیں مگربدقسمتی سے توجہ کا مرکز نہیں ۔ دنیا کے ساتھ ساتھ سارے اسلامی ممالک بھی اس سفاکانہ نسل کشی کو ہر آن دیکھ رہے ہیں مگر اس قیامت کو روک پانے سے معذور ،کمزور اوربے تاثیر احتجاج کے ساتھ دورکھڑے ہیں ۔ مدد کے نام پر بیان بازی کا سلسلہ ہے ، سوشل میڈیا تک محدود چیخ پُکارہے یا پھرمنافقانہ خاموشی جو خود ظلم کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔ مظلوموں کو جس نوعیت کاانسانی و اخلاقی تعاون اور امداد اپنے ہم قوم حُکمرانوں اور مملکتوں سےدرکارہے ،ہماری بے حسی اور بے و زنی وہ بھی اُن تک پہنچا نہیں پا رہی ہے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ایک نو زائیدہ چھوٹی سی طاقت کی رعونت کے آگے بڑی بڑی امیر وکبیراسلامی حکومتیں بھی پست ہو گئی ہیں ۔ حتّیٰ کہ جنگ بندی کی قرارداد منظور کروانے کیلئے عالمی مجلس اورعدالت میں ہمارے پاس ایک فیصلہ کن ووٹ تک کا اختیار نہیں ،نہ صرف ہماری قسمتوں کےفیصلے اغیار کی مرضی کے تابع ہیں بلکہ ہماری حفاظت بھی اغیار کے اسلحہ اور افواج کی محتاج ہے۔ ہماری ایمانی حمیت اب اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی چنگیزی طاقت ہمارے کسی اور پہلو پر وار کر دیگی اور ہم بس دہائیاں دیتے ہی رہ جائیں گے۔ دنیا عالمِ اسباب ہےاور ہرمسئلہ اپنے حل کے لئے اسباب کا محتاج ہے، شر یر دشمن کا سامنا ہو یا نا مساعد حالات کا، ٹھوس اقدامات، تدبیراورمستحکم لائحۂ عمل ہی اوّل و آخر چارۂ کار ہے۔ آج کے حالات کے آئینے میں فلسطینی عوام کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں توخدا نخواستہ ہمارا اور ہماری دیگر مملکتوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ کیااب بھی خوابِ غفلت سےجاگنے اور نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کا وقت نہیں آیا؟ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی نسل ، اپنا دین اورشناخت، اپنا مذہبی ورثہ محفوظ رکھنا ہے تو ہر صورت میں اقوام عالم کی برابری کی سطح پر کھڑےہونا ہوگا، اپنی نئی نسل کو آگاہی و خود بینی کے اوصاف سے آراستہ کر کےسائنسی تعلیم و ہنر،معاشی ،سیاسی ، دفاعی ہر میدانِ عمل میں خود کفیل بنانا ہوگا۔
November 04, 2023, 12:47 PM IST
فلسطینی عوام پر اسرائیل کےظالمانہ اقدامات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے فلسطینی بچوں، عورتوں، ضعیفوں، عام شہریوں پر بےدردی سے بمباری کر کے اسرائیل نے اپنی شیطانیت ثابت کی ہے۔ ظُلم کی انتہا تو یہ ہے کہ فلسطینیوں پر بجلی، پانی، غذا اور طبّی امداد کی فراہمی تک بند کر دی گئی ہے۔ ظالم اسرئیلی عوام ناچ گانا کر کے فلسطینیوں کی موت کا جشن مناتے بھی نظر آئے۔ننھے جسموں کے ٹکڑے لئے والدین، لاشوں کے ڈھیر پر روتے بلکتے بچے اور اپنے تباہ و برباد گھروں کو دیکھتے ہوئے روتے چیختے لوگوں کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ ایسی بربادی جسے آباد کرنے میں ایک دہائی لگ جائیگی۔ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو کو تو جیسے اِسی موقع کی تلاش تھی۔مغرب کی پشت پناہی نے اسرائیل کو اِتناظالم بنا دیا ہے کہ اُس نے فلسطینیوں کو اُن کے ہی علاقے فوراً خالی کرنے کی کھلی دھمکی دے دی۔ ان حالات میں لاکھوں فلسطینی عوام کہاں جائیں ؟ اقوام متحدہ جیسے ادارہ کو مظلوم فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق دلانے کی ضرورت ہے۔ سلام ہے دنیا کی اُن اِنسانیت پسند قوموں کو جنہوں نے سوشل میڈیا پر، اخبارات میں، ریلی میں فلسطینیوں کے ساتھ اپنے اپنے طریقے سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے، ساتھ ہی وہ بہادر صحافی بھی قابل رَشک ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کرفلسطین کے بدترین حالات کی حقیقی رپورٹنگ کی اور کچھ نے تو اپنی جان بھی گنوا دی۔ فلسطین کی حالت پر آج اہل اِنسانیت افسردہ اور شرمندہ ہیں کہ کوئی ان کیلئے سوائے ہمدردی اوردعا کے کچھ نہ کر سکا۔ اُمید ہے کہ کوئی معجزہ ہی اب فلسطینیوں کی مدد کر سکتا ہے۔
October 21, 2023, 02:49 AM IST
دوسری جنگ عظیم کےبعد اقوام متحدہ کی تشکیل وجود میں آئی ہے۔ جس کا ظاہر کچھ اورباطن کچھ اور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس عالمی تنظیم کا مقصد دنیائے ا نسانیت کو جنگ کےخطروں سے بچانا، ایک دوسرےکےخلاف مظالم کا سدِ باب، عالمی سطح پر عدل وانصاف قائم کرنا ہے۔ مگر باطن کچھ اور ہی ہے، اس لئے کہ اب اس تنظیم پر مغربی مما لک کا قبضہ ہے جو اپنے مفادات کیلئے اس تنظیم کو استعمال کررہے ہیں ۔ حالات اور واقعات پر گہری نظر ڈالنےکےبعد نتیجہ یہ سامنےآتاہے کہ اب تک کوشش یہی ہے کہ مسلم ممالک میں نت نئے خطرات پیدا کرکے عالم ِاسلام کو کمزور کیا جائے اور ایسا ہوبھی رہا ہے۔ ۱۹۴۱ء میں امریکہ کےصدر ’ روزالٹ ‘ نے اقوام متحدہ کےقیام کااعلان کیا، ۲۵؍ اپریل ۱۹۴۵ء کو اس تنظیم کاچارٹ تیارہوا اور ۵ ؍ماہ بعد اکتوبر ۱۹۴۵ء میں اس کی باقاعدہ بنیادڈالی گئی، منصوبہ بندطریقہ سے۱۹۴۷ء میں فلسطین کامسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا، اقوام متحدہ نے نہایت چالاکی کےساتھ انتہا ئی تیزی سے اسی سال نومبر میں فلسطین کوعربوں اور یہودیوں کےدرمیان تقسیم کرنےکافیصلہ دے دیا، اس کےبعد کیا ہوا ؟ عربوں اورفلسطینیوں کے درمیان ایسی جنگ کا آغاز ہوگیا جوآج تک جاری ہے۔ فلسطینیوں پر تشدد اورمظالم کاسلسلہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا گیا، مقامات مقدسہ کی تخریب کاری کے ناپاک منصوبےجاری ہیں ۔ آخر ظلم سہنے کی بھی حد ہوتی ہے، ایک دن آتاہے کہ مظلوم اپنےسر سے کفن باندھ لیتا ہے، اپنی جان ومال کےتحفظ کا حق اس کو بھی توحاصل ہے، اب جب یہ مظلوم اپنے حقوق کی لڑائی کیلئے تیارہوجاتاہے اور اقدام کرتا ہے تو اس کو’دہشت گرد ‘کہاجاتا ہے اور یہ کہہ کر اس پر مزید ظلم کےپہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔ فلسطین میں موجودہ صورتِ حال اسی ظلم کی تصویر پیش کررہی ہے۔ حماس کا فطری ردِ عمل کیا سامنے آیا، اس کو’ دہشت گردی‘ کانام دے کر انسانی حقوق کے محافظ علمبردار غزہ پر ٹوٹ پڑے۔ اسرائیل کی مسلسل بمباری جاری ہے، عام شہریوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، بجلی، خوراک، پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کہاں ہیں حقوق انسانی کے علمبردار ؟ بات یہی ہے کہ ہرقدم پر زندگی کاقافلہ لٹتارہا راہ زن جب سےامیرِکارواں بنتےگئے۔
October 21, 2023, 02:48 AM IST