Inquilab Logo

نوح ناروی کا سفر ان کے پوتے شاہد ناروی کی زبانی

Updated: November 10, 2023, 2:51 AM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

ہمارے پر دادا (میری دادی کے والد) نوح ناروی نے غزل کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے جن کی زبان دانی مسلّم تھی۔

Nooh Narvi (right) and Shahid Narvi. Photo: INN
نوح ناروی (دائیں) اور شاہد ناروی۔ تصویر: آئی این این

ہمارے پر دادا (میری دادی کے والد) نوح ناروی نے غزل کے علاوہ دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے جن کی زبان دانی مسلّم تھی۔ داغ دہلوی کی تربیت سے فیض اٹھاتے ہوئے انہوں نے بھی اپنی قادر الکلامی کا ثبوت پیش کیا۔ جتنی بڑی تعداد میں ان کے شاگرد تھے، اُس عہد کے کسی دوسرے استاد شاعر کے نہیں تھے۔ یہ بات بھی اُنہیں اپنے عہد میں ممتاز رکھتی تھی۔ 
اب سنئے کہ ہمارے پردادا نوح ناروی ۱۸؍ ستمبر ۱۸۷۹ء کو بھوانی پور تحصیل سلون ضلع رائے بریلی، (اودھ ) میں اپنے نانا شیخ علم الہدیٰ کے دولت کدہ پر عیدکے دن پیدا ہوئے۔ نوح ناروی کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا۔ ان کے والد عبدالمجید ڈسٹرکٹ جج تھے۔ اس زمانے میں اس عہدہ کو صدرِ اعلیٰ کہا جاتا تھا۔ یوں تو اللہ نے عبد المجید صاحب کو دولت، عزت، ثروت، اقبال و مرتبہ، غرضیکہ دنیا کی ساری نعمتیں عطا کی تھیں مگر اولاد نرینہ کی بے بہا نعمت سے وہ محروم تھے اور یہ نعمت ان کی عمر کا بڑا حصہ گزرنے کے بعد نصیب ہوئی۔ نوح صاحب کی پروش وپرداخت اور تعلیم و تربیت کے متعلق عبد المجید صاحب کے دل میں  نہ جانے کیا کیا خیالات رہے ہوں گے، مگر افسوس کہ موت کے نہ ٹلنے والے حکم نے ان ارادوں کو پورا کرنے کی مہلت نہ دی اور ابھی نوح صاحب نے ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ ان کے والد عبدالمجید صاحب کو سفر آخرت درپیش آگیا اور وہ ۲۶؍ جون ۱۸۸۳ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
 شفقت پدری سے محروم ہونے کے بعد ان کی والدہ نے ان کی پرورش کی۔ ان کی تین سوتیلی بہنیں بھی تھیں جن کا رویہ ان کے تئیں انتہائی نرم تھا، لیکن عبد المجید صاحب کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کے دلوں میں تقسیم ترکہ و میراث کا احساس جاگا جو بعد میں فتنہ و فساد کی حد تک پہنچا۔ خاندانی اختلافات اور لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آئی لیکن بڑے ہونے پر نوح ناروی نے حکمت و دانش سےخانگی معاملے کو سُلجھا لیا اور والد کی تمام املاک کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد بہنوں کوان کا حصہ دلایا۔ 
نوح ناروی صاحب کی ابتدائی تعلیم مولوی صاحب ناروی کی زیر نگرانی ہوئی۔ حافظ قدرت علی نے ناظرہ قرآن مکمل کرایا۔ پھر آگے کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا۔ مولوی عبدالستار مچھلی شہری فارسی اور اردو کیلئے جبکہ انگریزی کیلئے ماسٹر محمد علی صاحب الہ آبادی مقرر کئے گئے۔ یہ اساتذہ نارہ میں ان کے گھر پر رہ کر تعلیم دیتے تھے۔ تعلیم کا یہ سلسلہ تقریباً آٹھ سال تک جاری رہا۔ مولوی عبد الستار مچھلی شہری صاحب کے جانے کے بعد میرنجف علی سید جو نارہ میں ہی مکتب چلاتے تھے، وہ نوح صاحب کو عربی و فارسی کی تعلیم دینے کیلئے مامور کئے گئے۔شعر و سخن کا شوق میر نجف علی صاحب کی صحبت میں پیدا ہوا۔ شروع میں انہی سے اصلاح لیتے رہے۔ ان کا پہلا شعر تھا:
کیوں جائے بار بار نہ قاتل کے سامنے 
پھرتی ہے شکل موت کی بسمل کے سامنے 
 پھر امیر مینائی کو دو تین غزلیں اصلاح کیلئے بھیجیں۔ اس کے بعد جلال لکھنوی سے پانچ چھ غزلوں کیلئے مشورہ سخن لیا۔ بالآخر نواب فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کے شاگرد ہو گئے۔ نوح صاحب نے داغ دہلوی کی ایماء پر دو بار حیدر آباد کا سفر کیا۔ اس درمیان حضرت داغ نظام حیدر آباد کے یہاں قیام پذیر تھے۔ نوح ناروی نے اپنے دونوں سفر میں  تقریباً دو سال تک حیدر آباد میں قیام کیا۔ 
 ہمارے پردادا نوح ناروی کی صبح نماز فجر اور تلاوت کلام پاک سے ہوتی تھی۔ اس کے بعد وہ دیر تک ذکر و اذکار میں مشغول رہتے تھے۔ انہوں نے ایک جگہ اپنے شعر میں کہا ہے: 
نوح پڑھتا ہے پانچ وقت نماز 
پارسائوں کا پارسا نکلا 
ایک جگہ تسبیح سے متعلق کہتے ہیں : 
کررہے ہیں وہ گناہوں کو شمار 
نوح کی تسبیح خوانی کچھ نہیں 
ذکر واذکار سے فارغ ہو کر وہ ناشتہ کرتے تھے۔ ناشتہ میں انہیں پیاز کی پکوڑیاں بہت پسند تھیں۔ وہ کوٹھی کی بالائی منزل پر قیام کرتے تھے۔ ناشتہ کے بعد احاطہ کے اندر آجاتے جہاں اصطبل اور بہت بڑا کبوتر خانہ تھا۔ نوح صاحب کو کبوتر پالنے کا بہت شوق تھا۔ انہوں  نے کئی سو کبوتر پال رکھے تھے۔ شاہجہاں  پور کے ایک نواب صاحب تھے (ان کا نام اس وقت ذہن میں نہیں آرہا ہے) نوح صاحب کے ان سے بہت اچھے مراسم تھے۔ چنانچہ وہ شاہجہاں پور سے اچھی نسل کے کبوتر لایا کرتے تھے۔ 
نوح صاحب کو گھڑ سواری کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کے اصطبل میں اچھی نسل کے تنومند گھوڑے بندھے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی بندوق لے کر جو میڈ اِن انگلینڈہے، گھوڑے پر سوار ہوتے اور شکار پر نکل جاتے تھے۔ ان کی وہ بندوق آج بھی میرے پاس ہے جس کا لائسنس اب میرے نام منتقل ہو گیا ہے۔ 
نوح صاحب کو حقے کا بہت شوق تھا۔ ایک نوکر خاص طور سے ان کا حقہ تیار کرنے کیلئے مامور تھا۔ حقے میں استعمال ہونے والی تمباکو الہ آباد کے مشہور تمباکو فروشوں سے منگوائی جاتی تھی۔ وہ الگ الگ شہروں سے مختلف قسم کے حقے بھی منگواتے تھے، خاص طور سے چاندی کے حقے۔ وہ گھر کیلئے اچھی قالین اور دیگر اشیاء کے انتخاب میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ 
نوح ناروی صاحب حضرت وارث علی شاہ دیویٰ بارہ بنکی کے سلسلہ سے بیعت تھے۔ چنانچہ ان کا بزرگانِ دین سے خاص لگائو تھا۔ ایک منقبت انہوں  نے (جو مجھے اس وقت یاد نہیں ) خاص طور سے اجمیر شریف میں  بیٹھ کر لکھی تھی۔ اس کا ایک شعر اس طرح ہے:
کیا خبر بادہ کشی کا ہے قرینہ کیسا 
ہم تو چھوتے بھی نہیں ہاتھ سے، مینا کیسا 
نوح صاحب دختررز سے نہ رکھئے رسم و راہ 
آپ جیسے نیک خو‘ کو نیک خو‘ درکار ہے 
نوح صاحب بر محل اشعار کہنے پر بڑی قدرت رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ گھوڑے سے گر کر زخمی ہو گئے تھے۔ جب ان کی عیادت کیلئے دوست احباب آئے تو برجستہ کہا: 
وہ دیکھنے کو آئے ہیں کیا کیا دکھائیں ہم 
دل کی، جگر کی، سینے کی، پہلو کی، سرکی چوٹ 
بعد میں انہوں نے اسی زمین میں پوری غزل کہی۔ نوح صاحب ہر خاص و عام  سے بہت خلوص سے ملتے تھے، یہاں تک کہ نوکروں سے بھی بہت محبت سے پیش آتے تھے اور اُن کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ جو نوکر ہندو تھے ان سے گوشت منگوانا تو دور، ان کے سامنے گوشت پر گفتگو بھی ممنوع تھی۔ 
 میری دادی بتاتی تھیں کہ گھر کے چھوٹوں کو اس بات کی تاکید تھی کہ عمر میں بڑے نوکروں  سے ادب سے پیش آئیں۔ ان کو نام سے نہ پکارنے کی سخت تنبیہ تھی۔ عمر کے لحاظ سے ان کو چچا، بھائی اور دادا کہہ کر مخاطب کرنے کی ہدایت دیتے تھے۔ 
 نوح صاحب موسمی پھل اپنے پاس رکھتے تھے اور کھانے کے ساتھ ان پھلوں  کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ گھر کے چھوٹے بچوں کو اپنے پاس بٹھاتے تھے۔ جو خود کھاتے وہ سب بچوں کو بھی دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ گھر کے بچے ان سے بے حد مانوس تھے اور رات میں سونے کے علاوہ کسی لمحہ ان سے علاحدہ نہیں ہوتے تھے۔ بچوں  کی خصوصیت کے مطابق انہوں نے ان کا نام دے رکھا تھا۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر سعید احمد جو بڑے سماجی تھے، نوح صاحب ان کو چودھری کہہ کر پکارتے تھے۔ اسی طرح ہمارے چچازاد بھائی خورشید کو وہ کاکاتوا کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ مزاجاً بہت سیدھے ہیں۔ 
نوح صاحب کی زمینداری میں  جو کاشتکار تھے، انہوں نے ان پرکبھی زیادتی نہیں  کی۔ وہ ان کے ساتھ بھی بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ چنانچہ زمینداری کے بعد بھی ان کی عزت و توقیر میں  کوئی کمی نہیں آئی۔ ہمارے قصبہ نارہ کے پاس ایک اور قصبہ ہے’’ اُدہِن‘‘۔ یہاں کے زمینداروں سے دادا کے ایسے دیرینہ مراسم تھے کہ رمیش پانڈے اور اندر پانڈے کے ایک مقدمہ میں انہوں  نے اپنی پوری پراپرٹی بطور ضمانت دے دی تھی، بعد میں پانڈے جی وہ مقدمہ جیت گئے۔ اندر نارائن پانڈے کی بیوی نوح صاحب کو سگے بھائی کی طرح مانتی تھیں۔ 
الہ آباد میں ان کے دوستوں میں سر تیج بہادر سپرو، پنڈت رادھے ناتھ گلشن، موتی لال ککّا، کملاکانت ورما (جج الہ آباد ہائی کورٹ)، ہجر شاہجہاں پوری، اختر لکھنوی، حافظ ابراہیم صاحب، امرناتھ جھا (وائس چانسلر الہ آباد یونیورسٹی)، دوارکا پرساد نشاط (جو ان کے شاگرد بھی تھے) اور ایسی کئی ممتاز شخصیات شامل تھیں۔ اکبر الہ آبادی نے نوح صاحب کیلئے الہ آباد میں اپنی رہائش گاہ پر ایک کمرہ مخصوص کررکھا تھا۔ نوح صاحب جب بھی الہ آباد آتے، وہیں قیام کرتے تھے۔ میراجب بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ الہ آباد جانا ہوا، انہوں نے اکبر الہ آبادی کے مکان کا وہ کمرہ مجھے ضرور دکھایا جو نوح صاحب کیلئے وقف تھا۔ اکبرالہ آبادی کی حویلی کا نام عشرت منزل ہے ( جس میں اب یادگار حسینی انٹر کالج قائم ہے)۔ 
نوح صاحب جب کسی دوسرے شہر جاتے تھے تووہاں  قیام کرنے والے اپنے اعزاء و اقربا سے ضرور ملتے، چاہے کتنی ہی مصروفیت ہو لیکن وہ وقت نکال لیتے تھے۔ دہلی میں ان کا قیام سراج الدین احمد خاں سائل (حضرت داغ دہلوی کے داماد) کے یہاں  ہوتا تھا۔ اس کا تذکرہ مولانا ماہر القادری نے اپنی تصنیف ’ یادِ رفتگاں ‘ میں  کیا ہے۔ ان سے متعلق وہ لکھتے ہیں : ’’نوح صاحب چال ڈھال اور بول چال میں مشرقی تہذیب کی جیتی جاگتی مثال تھے۔‘‘ ان کے دل میں دوسرے مذاہب کیلئے بھی بہت احترام تھا۔ ان کی شاعری میں ایسے اشعار جا بجا ملتے ہیں : 
حرم کہ دیر مجھے وہ مقام یاد نہیں 
جمال یار کو دیکھا تو ہے نہیں میں نے 
برہمن اس کے ہیں شیخ اس کے ہیں راہب اس کے ہیں 
دیر اس کا ہے، حرم اس کا، کلیسا اس کا ہے 
نوح صاحب کے شاگردوں میں سکھ دیو پرساد بسمل الہ آبادی، دُعا ڈبائیوی، راز الہ آبادی، صوفی میرٹھی، سوگ الہ آبادی، حافظ دھولیاوی، ریاض جیوری، عزیز وارثی،انور گوالیاری، شاہد نوحی مظفر نگری، امین سلونوی، زیبا ناروی وغیرہم شامل تھے۔ ان کے شاگرد اپنے نام کے آگے نوحی لکھنا فخر سمجھتے تھے۔ ہجر شاہجہاں پوری، اختر نگینوی، حافظ محمد ابراہیم صاحب یہ تینوں  ان کے دوست تھے۔ ان کے غیر مطبوعہ دیوان (جس کو میں ترتیب دے رہا ہوں اور ۹۰؍ فیصد کام مکمل ہو چکا ہے) میں  کئی ایسی غزلیں ہیں جو انہوں نے سر تیج بہادر سپرو، امرناتھ جھااور گلشن صاحب کی فرمائش پر کہی ہیں۔ الہ آباد کی انجمن ’’روح ادب‘‘ اب بھی قائم ہے جس کے بانیوں میں سپرو صاحب، نوح صاحب اور پنڈت رادھے ناتھ گلشن صاحب تھے۔ بعد میں نوح صاحب نے اپنی ایک انجمن ’’سفینہ ادب‘‘ کے نام سے قائم کی تھی جو سن ۸۰ ء تک قائم رہی۔ 

 (یہاں سے نوح صاحب کی شخصیت پر شاہد ناروی کی بڑی بہن خطیبہ روشنی ڈال رہی ہیں جو الہ آباد ہی میں رہتی ہیں۔ انہیں یہ شرف حاصل ہے کہ نوح صاحب کے آخری ایام میں، جب ان کی بینائی کمزور ہو گئی تھی، ان کا کلام لکھا کرتی تھیں )

نوح صاحب کے بارے میں آپ نے ہمارے چھوٹے بھائی سے کافی کچھ سنا ... میں آپ کوبتاتی چلوں  کہ ... نوح صاحب کی ایک ہی بیٹی سائرہ خاتون تھیں۔ ان کے دو بیٹے مجید احمد، سہیل احمد (میرے والد) اوربیٹیاں سعید ہ بیگم اور مجیدہ بیگم تھیں۔ سہیل ناروی صاحب اپنے نانا کی صحبت میں رہتے ہوئے شعر کہنے لگے تھے۔ ان کے ذوق شعر سے نوح صاحب بہت خوش تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ میرے اس فن کو میرا یہ نواسہ (سہیل) زندہ رکھے گا۔ وہ اپنے نواسوں مجید اور سہیل صاحب سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ انہیں  ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اپنے نانا کی صحبت میں رہ کر سہیل ناروی (میرے والد) نے پہلا شعر کہا تھا : 
یہ ٹکراتے نہیں آپس میں مرجھائے ہوئے پتے 
بہار چند روزہ پر کف افسوس ملتے ہیں 
نوح صاحب اپنے نواسے نواسیوں کے علاوہ گھر کے دیگر بچوں سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا ناشتہ بچوں  کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ گھوڑوں، گھڑسواری اور کبوتر پالنے کا انہیں بہت شو ق تھا جیسا کہ آپ شاہد سے سن ہی چکے ہیں۔ وہ اُڑتے ہوئے کبوتروں کی نسل بتا دیتے تھے۔ نوح صاحب کو اپنے گائوں (نارہ) سے بہت لگائوتھا۔ دولت،شہرت اور عزت و ثروت کے باوجود انہوں نے کبھی شہر میں رہنا پسند نہیں کیا۔ اپنے گائوں سے الہ آباد شہر جانے کیلئے ۹ ؍ میل کا سفر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر کرتے تھے، انہیں اس میں  بے پناہ لطف آتا تھا کیونکہ انہیں اپنی مٹی سے بہت محبت تھی۔ کوئی ان نے نارے کا پتہ پوچھتا تو کہتے: 
طرف فاصلہ اور سمت کچھ نہ پوچھو 
سراتھو سے ۹؍ میل دکھن ہے نارہ 
سراتھو نارہ کی تحصیل ہے اور اب نارہ اور سراتھو الہ آباد سے الگ ہو کر کوشامبی ضلع میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس زمانے میں ان سے ملنے بڑے بڑے لوگ نارہ آیا کرتے تھے۔ گھر آنے والے مہمان جب ان سے نارہ کی طرف آنے والی ٹوٹی پھوٹی سڑک کی شکایت کرتے تو مسکراتے ہوئے کہتے: ’’جیسے قیامت کا آنا برحق ہے اسی طرح اس سڑک کا بننا بھی برحق ہے لیکن قیامت کی طرح اس کا وقت بھی متعین نہیں۔‘‘ آخری عمر میں  جب جب لکھنے سے معذور ہو گئے اور بینائی بھی کمزور ہو گئی تھی تو مجھ سے اپنی غزلیں لکھوایا کرتے تھے۔ وہ بولتے جاتے تھے اور میں لکھتی جاتی تھی۔ کبھی کبھی ہماری پھوپھی مجیدہ بیگم بھی ان کی غزلیں لکھتی تھیں۔ 
 ایک بار سراتھو میں پنڈت جواہر لعل نہرو کا کسی پروگرام میں شرکت کیلئے آنا ہوا تو انہوں نے خاص طور سے نوح صاحب کو بلا بھیجا۔ پھر نوح صاحب کو اپنے ساتھ ڈاک بنگلہ لے گئے۔ میرے والد سہیل صاحب اور بڑے ابا عبدالمجید بھی حسب عادت اپنے نانا کے ساتھ ہو لئے۔ ڈاک بنگلے میں جب ان صاحبان کیلئے چائے آئی تو نہرو جی نے کرسی سے اُٹھ کر اپنے ہاتھ سے نوح صاحب کو چائے پیش کی اور کہا کہ نوح صاحب میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلا جھجھک بتائیں۔ اس درمیان نوح صاحب نے انہیں اپنی ایک نظم بھی سنائی جسے پنڈت جی نے بہت پسند کیا۔ 
زندگی کے آخری ایام میں نوح صاحب سفر و اسفار سے پرہیز کرنے لگے تھے، یہاں تک کہ الہ آباد بھی کم ہی جاتے تھے۔ ایک دن اپنی نقاہت اور کمزور ی کا احساس کرتے ہوئے میری دادی سےیوں  گویا ہوئے: 
نوح اب نارے میں  بیٹھو چین سے 
اب یہی دِلّی یہی لاہور ہے 
آخری دن وہ حسب معمول ناشتہ کے بعد احاطے میں چلے گئے اوردیر تک اپنے کبوتروں  کو دیکھا اور گھوڑوں پر ہاتھ پھیرا۔ دوپہر کو ظہر بعد ان کی طبیعت کچھ خراب ہوئی۔ تمام عزیز و اقارب جمع تھے۔ میری دادی ان کے سرہانے بیٹھی تھیں، آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ انہوں  نے دادی کی طرف دیکھا اور کہا: 
سرہانے مرے لوگ کیوں  رو رہے ہیں 
قضا کا کہیں وقت ٹالے ٹلا ہے ؟
مذکور ہ شعر انہوں نے اپنے انتقال سے دو روز قبل کہا تھا۔ بہرکیف، وہ ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۶۲ء کا دن تھا جب حضرت نوح ناروی کا سفینہ ٔحیات کنارے لگ گیا۔ اب آپ نے جانا، ایسے تھے نوح ناروی!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK