Inquilab Logo

منٹو کے افسانوں کے اختتام

Updated: December 16, 2023, 9:09 AM IST | Mohammad Aslam Parvez | Mumbai

حقیقت نگار ی کی روایت میں لکھے گئے افسانوں میں اختتام کو ہم وہ توتاکہہ سکتے ہیں جس میں افسانہ کے دیو کی جان ہوتی ہے۔ وحدت تاثر اور جاذبیت کا کس قدر دارو مدار افسانہ کے نقطہ اختتامیہ پر ہوتا ہے جو تکنیک کے تفاعل کاہی ایک فنکارانہ حصّہ ہے۔

Saadat Hasan Manto. Photo: INN
سعادت حسن منٹو۔ تصویر : آئی این این

حقیقت نگار ی کی روایت میں لکھے گئے افسانوں میں اختتام کو ہم وہ توتاکہہ سکتے ہیں جس میں افسانہ کے دیو کی جان ہوتی ہے۔ وحدت تاثر اور جاذبیت کا کس قدر دارو مدار افسانہ کے نقطہ اختتامیہ پر ہوتا ہے جو تکنیک کے تفاعل کاہی ایک فنکارانہ حصّہ ہے۔ اس وضاحت کی یہاں چنداں ضرورت نہیں کہ افسانہ کی تعمیر میں تکنیک کا رول اہم ہی نہیں کلیدی ہوتا ہے۔ یوں توتکنیک کی کوئی جامع و مانع تعریف وحدوداربعہ کا تعین نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ تکنیک ہی ہے جس کا معنی خیز اور ہنر مندانہ تفاعل خبر، صحافیانہ رپورٹ، رپورتاژ، تاریخ یا ڈائری کے ورق کو افسانہ میں بدل دیتا ہے۔ غرض کہ تکنیک ہی افسانہ کو افسانہ کے طور پر قائم کرتی ہے۔ اختتام کو افسانہ کا مبدّل نہ سمجھا جائے تب بھی افسانوی ڈسکور س کا نقطہ منتہاضرورقرار دیا جا سکتا ہے، جو کردار اور واقعات کے روابط کو ایک جہت دے کر وحدت کے رشتہ میں پرو دیتا ہے۔ برے اختتام ممکن ہے اچھے افسانے کو بچا نہ پاتے ہوں لیکن کبھی کبھی ایک معنی خیز اور موثر اختتام معمولی افسانہ کوغیر معمولی فن پارہ میں تبدیل کردیتا ہے۔ یعنی انت بھلا توسب بھلا۔ جہاں تک منٹو کا تعلق ہے اس بات سے سب متفق ہیں کہ اس کے کمزور افسانے بھی وحدتِ تاثر اور جاذبیت سے پُر ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ منٹو کے افسانوں کے انجام مختلف فریم ورک میں کام کرتے ہیں اسی لیے انھیں افسانوی بیانیہ سے الگ کر کے دیکھا یا پرکھا نہیں جا سکتا۔ وحدت تاثر میں اضافہ کے لیے وہ مختلف، متنوع اور متضاد طریقہ کار اپناتا اور آزماتا رہا۔ زیر ِ نظر مضمون افسانوں کے اختتام کے حوالے سے اس کے فن کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ 
 قاری کی حیثیت سے یہ سوال بار بارمیرے اندر اٹھتا رہاہے کہ منٹو کے یہاں افسانہ پہلے خود کو حاصل کر لیتا ہے اور پھر اس کا اظہار کرتا ہے یا فن کا محصول تخلیق کے دوران ہی اجاگر ہوتا ہے۔ ؟اس سلسلے میں جب ہم منٹو سے رجوع ہوتے ہیں تو وہ ہمیں یہ کہتا ہوا نظر آتاہے کہ افسانہ کا پہلا جملہ میں لکھتا ہوں اور باقی کا افسانہ وہ جملہ لکھتا ہے۔ ظاہر ہے منٹو کا یہ دعویٰ یا فقرہ اگر ایسا نہیں ہے کہ اس کے تمام افسانوں پر اسے منطبق کیا جائے تو ایسا بھی نہیں ہے کہ سرے سے در خود اعتنا ہی نہ جانا جائے۔ پہلے فقرے کے ہاتھ میں افسانہ کی لگام دینے کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ وہ افسانہ کی پیٹھ پر خود سوار ہونے سے انکار کر رہا ہے۔ تخلیقی عمل کی اس پوری سرگرمی میں وہ نہ صرف اپنے ذہن کو مشاہدہ اور تجربہ کے لیے آزاد چھوڑ رہا ہے، بلکہ کرداروں کے سامنے اپنے نہتے ہونے کا اعلان بھی کر رہاہے۔ اپنے وجود کو پوری طرح پہلے فقرے کے سپرد کرنے کی اس بات سے لیکن ہمیں یہ مغالطہ نہیں کھانا چاہئے تخلیقی عمل میں وہ اپنی آزادی کے ہر امکان کو یکسر رد کررہا ہے یا افسانہ کی ماجرائی اتار چڑھائو کوپولین میں بیٹھے تماش بین والے تحیر و جستجو سے فقط دیکھ رہا ہے۔ افسانوی متن میں تشکیل پانے والے کردار، مکالمہ پس منظر، فضا سبھی داخلی منطق میں ہی اپنی تعبیر کا جواز فراہم کرتے ہیں لیکن منٹو کی اظہاریت افسانہ کے جملہ لوازمات متعلقات اور انسلاکات کو اپنے قابو میں رکھتی ہے۔ اظہاریت پر منٹو کی یہ دسترس اتنی صاف، واضح اور قابلِ شناخت ہے کہ بعض لوگ اس کے افسانوی ڈسکورس کا متحرک مرکز پہلے فقرے کونہیں اختتامی فقرے کو قرار دیتے ہیں کہ ان کے خیال میں منٹو نے اختتام کے لیے افسانے لکھے ہیں۔ گویا افسانہ کا پہلا نہیں آخری جملہ منٹو لکھتا تھا اور باقی کا افسانہ وہ آخری جملہ اس سے لکھواتا تھا۔ اگر اس بات پر یقین کیا جائے تو منٹو اپنے تخلیقی عمل کی وضاحت میں جو کہہ رہا ہے حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے۔ 
منٹو کو اختتام کا افسانہ نگار کہنے کے پیچھے جو تصور کار فرماہے اس کی بنیاد میں یہ مفروضہ آسن لگائے بیٹھا ہوا ہے کہ اس کے فن کا سارا جادو تکنیک میں پنہاں ہے۔ منٹو کے افسانے فقط تکنیک کی کرشمہ سازی ہیں یہ بات کچھ اس طرح کہی جاتی ہے گویا اس کا فن کسی ٹِرک پر محیط ہواور وہ پڑھنے والوں کو اپنی صناعی اور فنکارانہ شعبدے بازی سے جھانسہ دے رہا ہو۔ منٹو کے یہاں معنی خیزی اور نتائجیت پسندی کا عمل اس قدر اہم ہوتا ہے کہ وہ اس کے افسانوں کو کھیل ختم اور پیسہ ہضم والا معاملہ یا تجربہ بننے نہیں دیتا، بلکہ اختتام پر یہ افسانے قارئین کے دل و دماغ میں سوال پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، ظاہر ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب اختتام افسانہ کا الگ سے جوڑا گیا قصہ نہیں بلکہ افسانوی تجربہ کا ایک organicحصہ ہو۔ غیر متوقع ڈرامائی انجام اس کے افسانوں کا مابہ الامتیاز عنصر ضرور ہے لیکن یہ کہنا کہ منٹو نے شعوری طور پر اپنے افسانے غیر متوقع انجام پر استوار کیے اور قارئین کو دانستہ طور پر استعجاب میں ڈالنے اور انھیں ششدر کرنے کی کوشش کی، کہیں نہ کہیں منٹو اورمنٹو کے فنی و ادبی اختصاص کی اہمیت میں تخفیف کے مترادف ہے۔ 
 منٹو کی خلاقی اور فنی انفرادیت اور ذہنی زرخیزی کے بلیغ اشارے اس کے افسانوں کے انجام میں بھی مضمر ہیں۔ ’’سڑک کے کنارے‘‘’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ ’’سراج‘‘ ’’سو کینڈل پاور بلب‘‘ ’’یزید‘‘ ’’ٹوباٹیک سنگھ‘ ’’کھول دو‘‘ ’’ہتک‘‘ ’’سوراج کے لیے‘‘’’ٹھنڈا گوشت‘‘جیسے بیسیوں افسانوں کے انجام کی جاذبیت اور معنویت ایسی پُر اثر ہے کہ پڑھ لیں تو پیچھا نہیں چھوڑتی اور اندر تک حلول کر جاتی ہے۔ وہیں ’’پھوجا حرامدہ‘‘، ’’منتر‘‘، ’’نعرہ‘‘، ’’میرا اور اس کا انتقام‘‘، ’’پھاہا‘‘، ’’سجدہ‘‘، ’’بانجھ‘‘ کے اختتامی فقرے تازگی اور ندرت میں اس طوراضافہ کرتے ہیں کہ افسانے کا متن چمکنے لگتا ہے۔ چونکہ اس کا ہر افسانہ اپنی جست اور جہت کے مطابق اختتام کے دریافت میں حصّہ لیتا ہے، لہذا مل کر کوئی وضعیاتی تسلسل یا پیٹرن خلق نہیں ہوتا۔ منٹو کے افسانوں میں اختتام کسی معجزے کی طرح وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مگر غور کریں تو یہ معجزے یوں ہی رونما نہیں ہوئے ہیں، ان کے اہتمام کیا گیا ہے۔ یہاں ہمیں افسانے کی ساخت کو اپنے حساب میں رکھنا ہو گا اور دیکھناہوگا کہ وہ اپنے فنی اوزاروں کا استعمال کس طرح کر رہا ہے اور زبان کے تئیں اس کا رویہ کیاہے؟ بیانیہ میں کس بات کو وہ وضاحت کے ساتھ بیان کر رہا ہے اور کس بات کو محض ٹانک رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ وہ کون سی بات ہے جسے وہ ان کہی چھوڑرہا ہے۔ 
’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ میں گورمکھ سنگھ کے بیٹے سنتوکھ سنگھ کا اختتامی فقرہ، افسانوی منظر نامے کوایک ایسی غیر متوقع صورتحال میں پلٹ دیتا ہے، جس کے لیے قاری خود کو تیار نہیں پاتا۔ اسی نوع کی صورتحال سے قاری ’’سڑک کے کنارے‘‘، ننگی آوازیں‘‘، ’’سو کینڈل پاور بلب‘‘، ’’اولاد‘‘، ’’سرمہ‘‘، ’’ڈارلنگ‘‘، ’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’شریفن‘‘ وغیرہ کے اختتام میں بھی دوچار ہوتا ہے۔ لیکن یہ اختتامات کوئی رول ماڈل نہیں کہ ہر دوسرے افسانے میں قاری کی کیفیت پہلے سے مختلف ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ کا اختتام قاری کو کیوں کر غیر متوقع معلوم ہوتا ہے اوراس کے باوجود وہ اسے کیوں کرقبول کرتا ہے ؟اسی طرح ’’سڑک کے کنارے‘‘ کی قرات کے دوران قاری کو اختتام کی پیشگی اطلاع نہیں ملتی لیکن پھر بھی اس اختتام کو وہ بخوشی قبول کرلیتا ہے، کیوں ؟ ’’سڑک کے کنارے‘‘یہ پوراافسانہ منٹونے ڈرامائی مونو لاگ کی صورت یعنی خود کلامی کے اسلوب میں لکھا ہے، لیکن اس جدلیات کواختتامیہ رد کردیتا ہے۔ جذباتی اظہار کے تموج کا اختتام اخبار کے ایک تراشہ پر ہوتا ہے، جو انتہائی غیر جذباتی بلکہ بے حس زبان میں تحریر کیا گیا ہے۔ جبکہ ’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘میں ابتداء سے ہی اس غیر جذباتی اور معروضیت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ مگر اس معروضیت کے عین نیچے چھپی ہوئی باطنی بربریت اور داخلی سفاکی اختتامی موڑ پراچھل کر اچانک قاری کے سامنے آجاتی ہے۔ ’’سڑک کے کنارے‘‘میں اخبار کا تراشہ ہو یا’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ میں سنتوکھ سنگھ کااختتامی فقرہ۔ دونوں اپنی اصل میں اس قدر حملہ آورانہ اور صدماتی ہیں کہ اس کی کروٹیں اپنے لہو کی چار دیواری میں بڑی دیر تک محسوس کرتا ہے۔ اکیلا تنہا اور نہتا۔ اسی اکیلے پن اور بے اوزاری کے احساس سے قاری’’کھول دو‘‘ کے انجام میں بھی دوچار ہوتا ہے، جب اپنی مردہ بیٹی کے جسم میں زندگی کی رمق پانے والے سراج الدین کو’’زندہ ہے۔ میری بیٹی زندہ۔‘‘خوشی سے چلّاتا ہوا دیکھتا ہے۔ اس افسانہ میں ماجرا نگاری کی تشکیل جن امور کے توسط سے ہوتی ہے اس سے کہیں بھی انجام کا التباس پیدانہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اختتام کسی ٹرمپ کارڈ کی طرح منٹو نے بیانیہ کی آستین میں پہلے سے چھپا کر رکھا ہوا تھااور اختتام میں قارئین کے سامنے اسے رکھ دیا؟’’کھول دو‘‘ اور گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ کے افسانوی بیانیہ نے جس انجام کی تعمیر کی ہے اس کی ایک جہت کیا امکان کی صورت میں متن میں موجودنہیں ہے؟
 ’’دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سو گئی تھی۔‘‘’ہتک‘ کی یہ ابتدائی سطر لکھتے وقت منٹو یہ جانتا نہ بھی ہوکہ ایک عام سی نظر آنے والی طوائف تخلیق کے دوران پیچیدگی تہہ داری اور گہری حساسیت کے نتیجے میں سوگندھی جیسے غیر معمولی اور برتر عورت کے کردار میں ڈھلنے والی ہے، تب بھی اس کے پیشے اور باطنی زندگی کے تضاد کا کوئی ڈھیلا ڈھالا تصور اوراس کی کوئی مبہم و موہوم تصویر ضرور اس کے ذہن میں رہی ہو گی۔ اسی طرح سوگندھی کی کھولی کے انتشار اور گندگی کو بیان کرتے ہوئے سوکھے سڑے چپلوں کے اوپر منہ رکھ کر سوتے ہوئے خارش زدہ کتے کوافسانہ نگار نے کیا صرف اس لیے رکھا تھا کہ اختتام میں مادھو کوکھولی سے کھدیڑنے کے بعد اپنے آس پاس ہولناک سناٹا محسوس کرنے اور اپنا دل پرچانے کا کوئی طریقہ نہ ملنے پروہ اسے اپنے پہلو میں لٹا کر سوسکے اور افسانے کے قارئین کو ایک چونکانے والے انجام سے روبرو کرائے۔ سوگندھی کی زندگی میں اور افسانے کے ابتدائی حصہ میں خارش زدہ کتے کی موجودگی نے سوگندھی اور منٹو کو اس کے خلاقانہ، معنی خیز اور چونکانے والے استعمال کے لیے مجبور کیا۔ میرے خیال میں سوگندھی اور منٹو دونوں کے لیے ردّ وقبول کا یہ ایک انتہائی پیچیدہ عمل تھا۔ سوکھے سڑے چپلوں میں منہ رکھ کر سوتاہوا خارش زدہ کتا وہ بلی نہیں تھا جو بقول احمد ندیم قاسمی افسانے کے اختتام میں منٹو اپنے تھیلے سے باہر نکالتا ہے۔ منٹو کے افسانوں کے اختتام حد درجہ غیر متوقع ہونے کے باوصف اس کے خد و خال متن کی پشت پر موجود ہوتے ہیں اور ظاہر و مخفی حکمت عملی اسے ایک خود کار مشین کی طرح آکار دیتی ہے۔ 
 منٹو کے افسانوں کے انجام راجندر سنگھ بیدی کے مقابلہ میں زیادہ ٹھوس اور متعین ہوتے ہیں۔ لیکن یہ افسانوی ڈسکورس کا ٹرمینس نہیں ہوتے بلکہ وہ منطقہ ہوتے ہیں جہاں سے نئی راہیں کھلتی ہیں۔ بکھری ہوئی چیزیں افسانہ کے آخری جُز میں جس طرح مرتکیز ہوتی ہیں اس سے قاری پر وار تیکھا اور براہ راست پڑتا ہے۔ ممتاز شیریں نے منٹو کے اختتاموں کو او ہنری کے سے مماثل قرار دیا تھا۔ بے شک او ہنری کی طرح منٹو کے کئی افسانوں کے انجام تھرلنگ اور چونکا دینے والے ہیں، لیکن پھر بھی چول سے چول بٹھانے والے او ہنری کے افسانوں میں اکثر انجام مجھے ہاتھ کی صفائی معلوم ہوتے ہیں۔ ناقابلِ شکست شکنجے میں گرفتارہونے کے سبب اس کے افسانوں کے انجام اکثر یک رخی حقیقت کے بیان پر سمٹ جاتے ہیں۔ جبکہ منٹو کے افسانے open endedہوتے ہیں۔ اس کے یہاں ایسے افسانے کثیر تعداد میں موجود ہیں جو پیچیدہ اور منفرد تجربات کا انوکھا اظہار ہیں اور اختتام میں مفہوم کی نئی جہات کھولتے ہیں۔ منٹو کے افسانوں کے بعض اختتام سادگی، پُر کاری، نکتہ آفرینی اور parodoxکوجس طرح نمایاں کرتے ہیں، اس میں او ہنری سے زیادہ وہ موپاساں کے قریب نظر آتا ہے۔ 
’’یزید‘‘، ’’موذیل‘‘ اوردوسرے کئی افسانوں میں اختتامی مکالمہ ایک استعاراتی کلید بن جاتا ہے لیکن حیرت ہے منٹو کی چونکائو سرشت کا ڈھنڈورا ان افسانوں کے حوالے سے بھی خوب پیٹا گیا۔ انسانی فطرت کے وحشیانہ پہلوئوں کو نظم و ضبط میں بدلنے کی کوشش دونوں افسانوں میں موجود ہے۔ دونوں ہی افسانوں کے انجام مذاہب کی اخلاقیات اور ہماری سائیکی کو استہزایہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ اختتامیے افسانہ کی مسافت نے طے کیے ہیں۔ ’’یزید‘‘ کی طرح ’’موذیل‘‘ کے اختتام میں بھی افسانہ نگارکی آئیڈیوجیکل گونج سنائی دیتی ہے لیکن منٹو اپنے موقف کا دبائو بیانیہ میں اس طور پر قائم رکھتا ہے کہ قاری اسے ماحول اور واقعہ کی گزرگاہ سمجھتا ہے اور یوں اختتامیہ افسانہ کے اندر سے پھوٹتا ہوا معلوم ہوتا ہے، اوپر سے لادا ہوا نہیں لگتا۔ موذیل کا اختتامی فقرہ افسانہ کے واقعات کی پرتوں کے ساتھ پورے افسانوی تجربہ کو سمیٹے ہوئے ہے۔ 
چونکانے والے غیر متوقع اختتام عموماً پلاٹ ہی کا کرشمہ ہوتے ہیں۔ افسانے کو رومانچ اور تھرل سے بھرنے کے لیے جتنے امکانات پلاٹ میں موجود ہوتے ہیں، کردار میں نہیں ہوتے۔ واقعات کو منطقی ترتیب اور وقت کے تسلسل میں اس طرح مربوط کیا جاتا ہے کہ قاری مختلف سطح پرچونک پڑتا ہے۔ لیکن افسانے کے تخلیقی ارادے کو جہاں جہاں پلاٹ اپنے فریم ورک میں منقلب کرتا ہے، ڈسکورس کی وحدانیت پر ضرب لگتی ہے۔ اور یوں افسانوں کے انجام کی ڈرامائی اپیل قاری کو چونکانے کے کام آتی ہے۔ کلیاتِ منٹو بھی اس سے محفوظ نہیں، گو کہ ایسے افسانوں کی تعدادوہاں بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں ’’لائسنس‘‘، ’’اوپر نیچے اور درمیان‘‘ اور ’’انجام بخیر‘‘ کی مثال دوں گا اور اصرار کے ساتھ کہوں گا کہ ان افسانوں کے انجام پڑھنے والے کو چونکانے کے باوجود افسانوی ڈسکورس کا حصہ نہیں بن پائے ہیں۔ منٹو کے افسانوں میں پلاٹ سے زیادہ اہمیت کرداروں کو حاصل ہے۔ چونکہ یہ کردار قوتِ عمل اور قوتِ نمو سے عاری نہیں اور افسانوی پیراڈیم میں تفاعلی اور فیصلہ کن رول ادا کرتے ہیں۔ لہذا یہ کردارپلاٹ میں بندھنے کے بجائے خود پلاٹ کو وضع کرتے ہوئے تکمیلی مراحل سے گزرتے ہیں۔ منگو کوچوان، بشن سنگھ، خوشیا، جانکی، موذیل، بابو گوپی ناتھ، ممد بھائی کی حیثیت نہ رسوماتی ہوتی ہے نہ ان کا ردّعمل طے شدہ۔ ان کی بنیادی کشمکش حالات کے مرئی اور غیر مرئی دبائوکے حصار وں کوتوڑنے کی ہوتی ہے جس کی توقع افسانہ نگاراور قاری کو ہی نہیں کبھی کبھی خود کردار کو بھی نہیں ہوتی۔ ’’نعرہ‘‘ میں کیشو لال کو دی گئی سیٹھ کی گالیاں، سوگندھی کے چہرے پر ٹارچ کی روشنی پھینک کر اچھالا گیا ’اونہہ‘، خوشیا کے روبرو کانتا کا ’اپنا خوشیا ہے ‘والا فقرہ، ’’سرمہ‘‘ کی فہمیدہ کا سرمہ کے لیے خبط میں بدلتا شوق یا ’’اولاد‘‘ میں بانجھ پن اور مامتا کے درمیان ڈولتا ہوا زبیدہ کا دیوانہ پن، اسی طرح اپنے پیٹ میں نموپانے والے بچے کے لیے ’’سڑک کے کنارے‘‘ کی بے نام عورت کا اپنے ہاتھوں سے اس کا گلہ گھونٹ دینا، ممد بھائی کا گرفتاری سے بچنے کے لیے چہرے سے مونچھ کو آزاد کرنا۔ یہ کشمکش ان کرداروں کے باطن میں اس طور ہیجان پیدا کر دیتی ہے کہ افسانہ اپنا محور بدلتا ہوا معلوم پڑتا ہے۔ یہاں نثر اپنی توفیق کو مختلف طرح سے آزماتی ہے۔ کبھی عمل کو کیفیت میں بدل دیتی ہے تو کبھی صورتحال کو احساس و جذبہ میں۔ کبھی احساس یا جذبہ کردار کی صورت بھی نمودار ہونے لگتا ہے۔ قلب ماہئیت کا یہ عمل افسانہ سازی میں ہی نہیں، اختتام کی تشکیل میں بھی کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ یہاں بازیافت، تکراراور recurencesجیسے تکنیکی عناصر ایک طرف اس کے افسانہ کے بنیادی دھارے کو شدید کرنے کے موجب بنتے ہیں تو دوسری طرف اختتام میں اثر پذیری کا جواز بھی۔ ۔ 
شدت اور تاثریت میں اضافہ کے لیے بازیافت یا تکرارکا استعمال بیانیہ کو ایک امدادی مسالہ ضرور فراہم کرتی ہے لیکن یہی تکرار یا تفصیلات عمومی طور پروحدتِ تاثر کے حصول کی سب سے بڑی روکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ افسانہ نگار کی خود اظہاریت غیر ضروری اجزاء کی شرکت پر مجبور کرتی ہے اورانجام کار: افسانہ کے ہاتھ سے اختتام پھسل جاتا ہے۔ منٹوکی فنکارانہ مہارت بیانیہ میں کسی مرحلے پر ڈھیلی نہیں پڑتی، یہ ایک طرف اس کی جزئیات کو گھنا اور گہرا بناتی ہے، تو دوسری طرف افسانوی تھیم مربوط کرنے کا کام بھی انجام دیتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بیانیہ میں یہ تکرار اتنی ہی ظاہر ہوتی ہے جتنی کہانی کو ضرورت ہے اور یوں افسانوی سیاق کو اختتام کے لیے حرکت آفرین اور معنی گر بناتی ہے۔ 
جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ منٹو شدت اور تاثریت بڑھانے کے لیے تکرار، علامتوں اور امیجز کے توسط سے اظہاریت کی نت نئی صورتوں اور نوعیتوں کو خلق کرتا ہے تو کہیں یہی تکرار اس کے افسانوی بیانیہ میں موجود ہونے کے باوجود دکھائی نہیں دیتی۔ بعض اوقات منٹو اپنے کرداروں کے باطن میں جاری کروکشیتر کو یا تو اطلاعاتی انداز میں پہنچاتا ہے یا پھر اشاروں اور کنایوں میں اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ کشمکش اور تصادم کی کڑیاں اوجھل نہیں ہوتیں، ایک حد تک رقیق ضرور ہو جاتی ہیں۔ جبکہ کئی افسانوں میں وہ اپنے کرداروں کے ذہنی و جذباتی اور روحانی آشوب کو افسانہ کے صفحہ پرابھرنے نہیں دیتا۔ نیند کی خواہش ’’سو کینڈل پاور بلب‘‘ کی بے نام طوائف کے باطن کاایک اہم وقوعہ ہے، مگر بیانیہ میں راوی التجا کی صورت اس کی اطلاع مرموز ڈھنگ سے بہم پہنچاکربے نیازانہ گزر جاتا ہے۔ لیکن اس کی اصل معنویت افسانے کے آخری فقرے سے منکشف ہوتی ہے، جہاں سونے کی التجاایک سنگین مزاحمت میں بدل جاتی ہے۔ اختتام میں مزاحمت کا پُر شور اظہار ’’دو قومیں‘‘ میں ملتا ہے تو ایک خاموش اظہار کا نمونہ ’’دس روپئے‘‘میں نظر آتا ہے۔ منٹو کے کرداروں کے احتجانی اور انحرافی رویوں نے افسانہ کو کسی طے شدہ اور معین فریم ورک میں بندھنے نہیں دیا اور یو ں اختتام کو بعض اعتبار سے ایک ناقابلِ تسخیر توانائی و ندرت کا علامیہ بنا دیا۔ ’’ٹوبا ٹیک سنگھ‘‘، ’’ہتک‘‘، ’’موذیل‘‘، ’’نیاقانون‘‘، ’’خوشیا‘‘، ’’میرانام رادھا ہے‘‘، ’’سراج‘‘ جیسے افسانوں کے اختتام میں مزاحمت ان کے کرداروں کا حربہ بھی ہے اور ان کی زبان بھی۔ 
 بعض اختتام کی تشکیل میں منٹو کے شرارتی مزاج اور سرشت کابھی عمل دخل رہا ہے۔ منٹو کی اس خوش طبعی، بے خوفی اور بے باکی نے اس کے مختلف افسانوں کو خوبصورت، دلچسپ اور معنی خیز اختتام عطا کیے ہیں۔ ’’’دو قومیں‘‘’منتر‘‘، ’’بانجھ‘‘، ’’پھوجا حرامدہ‘‘، ’’گولی‘‘، بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔ ہئیت اور موضوع کے اعتبار سے یہ سبھی افسانے ایک دوسرے کس قدر مختلف ہیں لیکن ہلکے پھلکے انداز میں شروع ہونے والے ان افسانوں کے انجام ہلکے پھلکے نہیں۔ آخری موڑ پر افسانہ کا witاسے ایک المناک صورتحال سے روبرو کراتا ہے۔ ’’ٹیٹوال کا کتا‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔ طنز و ظرافت میں ڈوبا یہ ا فسانہ اپنے اختتام میں المئے کی صورت اختیار کر لیتا ہے جبکہ مختار اور شاردا کے رومانی روئیے کا افسانہ ’’دو قومیں‘‘اختتام میں ہندو مسلم سماج کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج کی طرف جس طرح اشارہ کرتا ہے وہ قاری کی توقع کو توڑ اور موڑ دیتا ہے۔ ’’دو قومیں‘‘۔ ’’منتر‘‘، ’’آنکھیں‘‘ کے اختتام ایسے مقام پر ہوتے ہیں جس کا سان و گمان بھی قاری کو نہیں ہوتا لیکن اس کا ذہنی و جذباتی ارتکاز اسے رد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم ان افسانوں کو فقط شرارت کا حصہ سمجھ کر کنارے نہیں کر سکتے۔ کیونکہ جس شرارت نے افسانہ کو انجام عطا کیا ہے وہ فقط ایک بے ضرر اتھلی شرارت نہیں۔ منٹو کا تخلیقی ذہن یہاں بھی نئی راہیں تلاش کرتا ہے اور بسا اوقات اسے پا بھی لیتا ہے۔ ’’گولی‘‘میں بادی النظر لگتا ہے افسانہ کو اس کے انجام تک پہنچانے کے لیے افسانہ نگار نے یہ فقرہ گڑھا ہے، جبکہ یہ اپنے شوہر کو اپنا بنائے رکھنے والی بیوی کی فطری جبلت کا اشاریہ بن جاتاہے۔ سیدھے سادے پہلوئوں میں کوئی نئی بات نکال لینا یا پرانی بات کو کوئی نیا معنی دے دینا، کوئی نیا رنگ، نئی جہت کھوج لینا محض شعبدہ بازی یا trickپر مبنی نہیں۔ 
’’ڈارلنگ‘‘، ’’۱۹۱۹ء کی ایک بات‘‘ اور ’’بانجھ‘‘جیسے افسانوں کے اختتام قاری کو ایک طلسمی فضا سے نکال لاتے ہیں۔ ’’۱۹۱۹ء ایک بات‘‘کا راوی اپنے سامع پراور’’بانجھ‘‘ کا راوی اپنے قاری پر یہ بآور کراتا ہے کہ اب تک تم جوکہانی پڑھ اور سن رہے تھے وہ اس کا بنایاگیا متن ہے۔ ’’۱۹۱۹ء کی ایک بات‘‘میں بیان ہونے والا واقعہ کو اس کا سامع چیلنج کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’آپ نے جو داستان سنائی اس کا انجام مجھے آپ کاخود ساختہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘جبکہ ’’بانجھ‘‘ کے اختتامی سطر میں افسانہ نگارقاری کے روبرو خود اعتراف کرتا ہے’’نعیم نے اپنے لیے زہرہ بنائی اورمر گیا۔ میں نے اپنے لیے یہ افسانہ تخلیق کیا ہے اور زندہ ہوں۔ یہ میری زیادتی ہے۔‘‘ گویا جسے ابھی تک قاری ایک حقیقت سمجھ کر پڑھ رہا تھا وہ صرف افسانہ نگار کا تشکیل دیا گیا متن تھا۔ ’’پھوجا حرامداہ‘‘میں جو مہر فیروز صاحب پھوجا حرامداہ کی کہانی جو سنا رہے تھے اختتام میں پتہ چلتا وہ خود ہی پھوجا ہیں۔ غرض کہ ’’اسٹوری ان دی اسٹووری‘‘ کی تکنیک میں لکھے گئے یہ افسانے اختتام کو ایک نیا موڑ دیتے ہیں اور قاری کے جذبہ و احساس میں ہلچل پیدا کرکے اسے ایک نئے جمالیاتی انبساط سے روشناس کراتے ہیں۔ 
منٹو کے وہ تمام افسانے جو غیر متوقع اختتام لیے ہوئے ہیں، کہیں نہ کہیں تکنیک کا ہی کرشمہ ہیں۔ ایک ایسی تکنک کا جن میں زندگی دھڑکتی ہے۔ منٹو نے ان میں ایک ایسا خلق قائم کیا ہے کہ نہ اختتام افسانہ پر سوار ہوتا ہے اور نہ افسانہ اختتام پر۔ لہذا منٹو کے افسانوں کی کشش فقط اس کے اختتام میں ڈھونڈنا اور پانا اصل میں اسے اختتام کا افسانہ نگار کی حیثیت سے نشان زد کرنا ہی نہیں بلکہ اس ڈسکورس کو بھی ردّ کردینے کے مترادف ہے جسے فنی لوازم کے طور وہ اخذ کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ منٹو کے افسانوں کی فنی عظمت میں اختتام کلیدی رول ادا کرتے ہیں لیکن ان کافنی نظام اختتام سے تشکیل نہیں پاتا۔ منٹو کے افسانوں کو فنی احترام دینے کا کام اختتام نے بھی سرانجام دیا ہے اور وہ اس کے افسانوں کا امتیازی نشان بھی ہیں۔ ان کی معنویت منٹو کی اختصار پسندی، معروضیت جذپاتیت اورخود اظہاریت سے گریزنیزاپنے خلق کیے گئے کرداروں کوان کے حقِ خود اختیاری دینے کے سبب ہے۔ خود منٹو نے موذیل کے حوالے سے کہا تھا :
 ’’وہ افسانہ میں نے تھوڑا ہی لکھا ہے۔ موذیل نے لکھوایا ہے۔ بھئی مجھے افسانہ لکھتے وقت کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ مجھے کیا لکھنا ہے۔ قلم دوات سنبھالتا ہوں تو کاغذ کے اوپر۷۸۶ لکھ دیتا ہوں۔ پھر سوچتا ہوں افسانہ لکھنا ہے، افسانہ لکھنا ہے، افسانہ لکھنا ہے کیا لکھوں ؟ موذیل کا پہلا فقرہ میرا ہے اور پھر آخری فقرہ’’لے جائو اپنے مذہب کو‘‘ میرا ہے باقی سب کچھ موذیل کا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK