Henrietta Leavittنےستاروں کی چمک اور ان کی تبدیلی کی مدت کے درمیان تعلق دریافت کر کے کائنات کے فاصلے ناپنے کا نیا طریقہ بتایا۔
EPAPER
Updated: October 31, 2025, 4:13 PM IST | Mumbai
Henrietta Leavittنےستاروں کی چمک اور ان کی تبدیلی کی مدت کے درمیان تعلق دریافت کر کے کائنات کے فاصلے ناپنے کا نیا طریقہ بتایا۔
 
                                ہنریٹا سوان لیویٹ ایک امریکی ماہرِ فلکیات تھیں جنہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں فلکیات کے میدان میں نہایت اہم اور انقلابی دریافتیں کیں۔ ان کی پیدائش ۴؍جولائی ۱۸۶۸ءکو لنکولن، میساچوسٹس (امریکہ) میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اوبرلن کالج سے حاصل کی۔ بعد ازاں ۱۸۹۲ء میں ریڈکلف کالج سے گریجویشن مکمل کیا جو اُس وقت خواتین کیلئے ہارورڈ یونیورسٹی کا معاون ادارہ تھا۔ اسی دوران ان میں فلکیات سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی۔ 
تعلیم مکمل کرنے کے بعدہنریٹا لیویٹ۱۸۹۳ء میں ہارورڈ کالج آبزرویٹری میں بطورہیومن کمپیوٹر‘‘کام کرنے لگیں۔ اس دور میں خواتین کو رصدگاہوں میں تحقیق کی اجازت نہیں تھی، اس لئے انہیں فوٹو گرافی پلیٹس پر ستاروں کے مشاہدات کا تجزیہ کرنے کا کام سونپا گیا۔ ہنریٹا نے اپنی غیر معمولی محنت اور دقتِ نظر سے’’میجیلینک کلاؤڈ‘‘ (Magellanic Clouds) میں موجود بدلتے ہوئے ستاروں جنہیں ’’سیفیڈ ویری ایبل اسٹارز‘‘ (Cepheid Variable Stars) کہا جاتا ہے، کا مطالعہ کیا۔ 
ہنریٹا لیویٹ کی سب سے بڑی سائنسی کامیابی ۱۹۰۸ءمیں سامنے آئی جب انہوں نے ان ستاروں کی ’چمک اور مدتِ تبدیلی‘‘ (Period Luminosity Relation) کے درمیان ایک تعلق دریافت کیا۔ یعنی جتنا زیادہ کوئی سیفیڈ ستارہ روشن ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ وقت لیتا ہے اپنی چمک میں تبدیلی لانے کیلئے۔ اس تعلق نے بعد میں کائنات میں فاصلوں کی پیمائش کیلئے بنیاد فراہم کی۔ ان کے اس قانون کی مدد سے مشہور ماہرِ فلکیات ایڈون ہبل نے یہ ثابت کیا کہ ہماری کہکشاں کے علاوہ بھی کئی کہکشائیں موجود ہیں اور کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ یوں ہنریٹا لیوٹ کی تحقیق نے فلکیات کے میدان میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا۔ 
بدقسمتی سے ہنریٹا لیوٹ کو اپنی زندگی میں ان کے کام کا وہ اعتراف نہ مل سکا جس کی وہ مستحق تھیں۔ وہ \۱۹۲۱ءمیں صرف۵۳؍ برس کی عمر میں کینسر کے باعث وفات پا گئیں۔ ان کی دریافت کو بعد میں ’’لیویٹ کا قانون‘‘ (Leavitt’s Law) کہا گیا اور فلکیات میں اسے ایک بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ بعد از وفات سیارہ زہرہ کی مانند ایک سیارچہ’’ لیویٹ۵۳۸۳‘‘ اور چاند پر موجود ایک گڑھا (crater)’’لیویٹ‘‘ اُن کے نام پر رکھا گیا ہے تاکہ اُن مرد و خواتین ماہرینِ فلکیات کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے جنہوں نے اس شعبے میں کام کیا۔ اس کے علاوہ ٹیکساس کے میکڈونالڈ آبزرویٹری میں واقع ASAS-SN ٹیلی اسکوپس میں سے ایک ٹیلی اسکوپ کو بھی ان کے اعزاز میں ہنریٹا لیویٹ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ 
آج ہنریٹا لیویٹ کو اُن خواتین میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے خاموشی سے سائنسی تاریخ کی سمت بدل دی مگر اپنی زندگی میں شہرت یا اعزازات حاصل نہ کر سکیں۔ 
(وکی پیڈیا اور برٹانیکا ڈاٹ کام)