وہ نہ صرف ایک سرجن بلکہ ایک مصلح بھی تھے جنہوں نے طب کے میدان میں صفائی، احتیاط اور زندگی کی حفاظت کا عظیم پیغام دیا اور اس پر عمل کیا۔
EPAPER
Updated: April 26, 2025, 4:54 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
وہ نہ صرف ایک سرجن بلکہ ایک مصلح بھی تھے جنہوں نے طب کے میدان میں صفائی، احتیاط اور زندگی کی حفاظت کا عظیم پیغام دیا اور اس پر عمل کیا۔
جوزف لسٹر(joseph lister) ایک برطانوی سرجن تھے۔ انہوں نے آپریشنز کے دوران مریض، آپریشن کے کمرے اور اوزاروں کو جراثیموں سے بچانے کیلئے کاربولک ایسڈ (فینول) کا استعمال شروع کیا۔ پاسچر نے ثابت کیا کہ بیماری جراثیم سے ہوتی ہے اور جراثیم بھی جاندار ہوتے ہیں۔ لسٹر نے یہ تصور پیش کیا کہ اگر جراثیم جاندار ہیں تو انہیں کسی دوائی سے مارا بھی جا سکتا ہے۔ ان کی ایک دوائی لسٹرین منہ کو صاف کرنے کیلئے اب بھی استعمال ہوتی ہے۔جوزف لسٹر کو جدید جراثیم کش سرجری (Antiseptic Surgery) کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔
جوزف لسٹر۵؍ اپریل ۱۸۲۷ء کو اپنی والدہ ایزابیلا اور والد جوزف جیکسن لسٹر کے ہاں یوٹن، ایسیکس، انگلینڈ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایک ماہرِ عینک ساز تھے جنہوں نے مائیکرو اسکوپ میں بڑی بہتری پیدا کی جس سے جوزف لسٹر کے سائنسی رجحان کو تقویت ملی۔
بچپن میں لِسٹر کو چلنے میں دشواری ہوتی تھی اور وہ لڑکھڑا کر چلتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ۱۱؍ سال کی عمر تک گھر پر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد لسٹر نے آئزک براؤن اوربنجامن ایبٹ کی اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی۔ جب وہ۱۳؍ سال کے ہوئے تو انہوںنے ٹوٹنہم کے گروو ہاؤس اسکول میں تعلیم حاصل کی تاکہ ریاضی، نیچرل سائنس اور زبانیں پڑھ سکیں۔ ابتدائی عمر ہی سے لسٹر کوان کے والد نے بھرپور حوصلہ افزائی کی تھی۔
لسٹر نے ۱۸۴۹ء میں میڈیکل کے طالب علم کے طور پر داخلہ لیا۔ اناٹومی، فزیالوجی اور سرجری کے کورسیز مکمل کرنے کے بعد انہیں ’’سرٹیفکیٹ آف آنرز‘‘ سے نوازا گیا۔انہوں نے اناٹومی اور فزیالوجی میں سلور میڈل اور بوٹنی میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ وہ۱۸۵۲ء میں کالج آف سرجنز کے رکن بنے۔ان کا سب سے اہم کارنامہ \۱۸۶۰ءکی دہائی میں سامنے آیاجب انہوں نے مشہور سائنسداں لوئی پاسچر کے جراثیم سے متعلق نظریے کو سرجری میں لاگو کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت زخموں میں انفیکشن کی وجہ سے بے شمار مریض آپریشن کے بعد مر جاتے تھے۔لسٹر نے تجربات کے بعد دریافت کیا کہ اگر آپریشن کے دوران آلات، زخم اور ہاتھوں کو کاربولک ایسڈسے جراثیم سے پاک کیا جائے تو انفیکشن کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے پہلی بار یہ طریقہ۱۸۶۵ء میں ایک مریض کے زخمی پاؤں پر اپنایا جو مکمل صحت یاب ہو گیا۔جوزف لسٹر کی تحقیق نے طب کی دنیا میں نئی راہیں کھولیں۔ ان کے طریقۂ کار نے سرجری کے عمل کو محفوظ بنایا جس کی وجہ سے انفیکشن سے اموات کی شرح میں نمایاں کمی آئی۔
جوزف لسٹر کو۱۸۸۳ء میں نائٹ ہڈ (Knighthood) کے اعزاز سے نوازا گیا۔ بعد میں وہ لارڈ لسٹر کے لقب سے بھی پہچانے گئے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں لندن اور دنیا بھر میں اسپتالوں، کالجوں اور سڑکوں کے نام ان کے نام پر رکھے گئے جبکہ دنیا بھر میں لسٹر کے مجسمے اور یادگاریں موجود ہیں اور طب کے شعبے کے متعدد ایوارڈ ان سے منسوب ہیں۔
جوزف لسٹر کا انتقال ۱۰؍ فروری۱۹۱۲ء کو انگلینڈ میں ہوا تھا لیکن ان کی خدمات آج بھی جدید طب کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے دنیا کو یہ سکھایا کہ جراثیم نظر نہ آنے کے باوجود مہلک ہو سکتے ہیں اور ان کے خلاف احتیاطی تدابیر ہی بہترین علاج ہیں۔ان کی تحقیق سے آنے والے ڈاکٹرز نے رہنمائی حاصل کی۔