• Tue, 14 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈاکٹر بِلّی

Updated: October 14, 2025, 4:27 PM IST | Arifa Khalid Sheikh | Mumbai

موسلا دھار بارش نے فضاپر دھند کی ایک دبیز چادر ڈال رکھی تھی۔ سڑکیں ویران ہونے کی وجہ سے ماحول میں ایک پُر اسرار خاموشی تھی۔ آج موسم کی ستم ظریفی نے متحرک نفوس پر نکیل کس دی تھی۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
موسلا دھار بارش نے فضاپر دھند کی ایک دبیز چادر ڈال رکھی تھی۔ سڑکیں ویران ہونے کی وجہ سے ماحول میں ایک پُر اسرار خاموشی تھی۔ آج موسم کی ستم ظریفی نے متحرک نفوس پر نکیل کس دی تھی۔
آشیانہ اپارٹمنٹ کے مکین عشائیہ کے بعد اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے۔ فرحت بھی دو سالہ نیلم کو لئے اپنے کمرے میں آگئی۔ ماحول کی خاموشی اُس پر تھکن کا احساس فرحت کی آنکھوں کو بوجھل کر رہا تھا۔ وہ نیلم کو جلد سلانے کی کوشش کرنے لگی تاکہ پھر وہ بھی سکون سے سو سکے۔ لیکن نیلم کسی طرح سونے پر آمادہ نہیں تھی۔ اُس کی آنکھوں میں انتظار صاف جھلک رہا تھا اور یہ بات فرحت بھی اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔
دراصل نیلم کو اپنے نعمان چاچا کا انتظار تھا۔ نعمان کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا، جاتے وقت اُس نے نیلم سے وعدہ کیا کہ وہ اُس کے لئے اچھا سا کھلونا لائے گا۔ بس پھر کیا تھا۔ نیلم سونا تو دور پلکیں تک جھپکا نہیں رہی تھی۔
نیلم کو نعمان سے بہت اُنسیت تھی۔ نعمان اُس کا چاچا کم اور دوست زیادہ تھا۔ وہ اُس کے ساتھ خوب کھیلتی۔ ہنستی، روتی، روٹھتی اور پھر مان بھی جاتی۔ سبھی کی آنکھوں کا تارا نیلم اِن دِنوں نعمان کے ہاتھ کا چھالا بنی ہوئی تھی۔ نعمان اپنی اکلوتی بھتیجی پرجان چھڑکتا تھا۔ وہ جب ’’تاتو‘‘ (چاچو ) کہتی تو نعمان خوشی سے پھولے نہیں سماتا۔ اُس کا بس چلتا تو وہ اپنی بھتیجی کے لئے آسمان کے تارے توڑ لاتا۔
نعمان کا یہ معمول تھا کہ وہ روز شام نیلم کو قریبی باغ کی سیر کرواتا۔ ٹھنڈی ہواؤں سے گھرے صحت بخش ماحول میں جب نیلم مخملی گھاس پر خراماں خراماں چلتی تو جوتوں سے نکلنے والی ’’چوں چوں‘‘ کی آواز پر باغ میں موجود افراد اُس کی جانب متوجہ ہو جاتے اور اُس کی معصوم اداؤں سے لطف اُٹھا تے۔ وہ پورے باغ کا ایک چکر لگاتی پھر چاکلیٹ یا آئس کریم لئے خوشی خوشی گھر لوٹ آتی۔ اتوار کے دن تو نیلم کی چاندی ہو جاتی۔ اِس دن وہ نعمان کے ساتھ خوب کھیلتی اور خوب موج اُڑاتی....
رات نے اپنا دامن سمیٹا اور صبح کی دلہن نے شرما کر اپنا گھونگھٹ کھولا۔ نیلم ایک ان دیکھا ان جانا تجسس آنکھوں میں لئے آخر سو گئی۔ بدر کامل جیسا روشن چہرہ، گھنگریالے ریشمی بال.... فرحت نے پیار سے نیلم کا ماتھا چوما اور رضائی اُوڑھا دی۔
نیلم کی معصوم حرکتیں اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے طلسمی سحر نے گھر کے تمام ہی افراد کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ نیلم کو جو دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔ نظر نہ لگے اِس ڈر سے ماں آیتیں پڑھ پڑھ پھونکتیں تو دادی ماں بلائیں لیتی نہ تھکتیں۔
دن چڑھے جب نیلم جاگی تو اُس نے دیکھا کہ اُس کے چاچو اس کے پاس بیٹھے ہیں اور اُن کی گود میں ایک سفید رنگ کی بلّی ہے، بلّی کیا تھی مانو ابھی ابھی دودھ سے نہا کر نکلی ہو۔ نعمان اپنے وعدے کے مطابق نیلم کے لئے ایک جیتا جاگتا روئی کے گالے جیسا سفید کھلونا لے آیا تھا۔ نیلم اِس انوکھی مخلوق کو دیکھ کر اُٹھ بیٹھی۔ اُس کی آنکھوں میں حیرت، استعجاب اور نہ جانے کیا کچھ تھا۔
بلّی کا نام مینو تھا۔ مینو نیلم کو دیکھ میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ نعمان نے نیلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر مینو کی پیٹھ پر پھیرا۔ وہ خوش ہوئی اور پھر گردن موڑ کر نعمان کو ایسے دیکھا گویا کہہ رہی ہو کہ ’’دیکھو ! مَیں ڈری بھی نہیں۔‘‘ 
کچھ ہی دِنوں میں نیلم اور مینو کی اچھی دوستی ہوگئی۔ وہ اُسے ’’ماؤں‘‘ کہہ کر پکارنے لگی۔ نیلم کو مینو کی صورت ایک نیا دوست مل گیا۔ وہ مینو کے ساتھ کبھی ’’تک تک‘‘ (چھک چھک) ٹرین کھیلتی تو کبھی  ’تاؤ ماؤ‘ (چاؤں میاؤں)، اُس کے کھیل کا انداز اِتنا دِل فریب ہوتا کہ نعمان کیمرے کی آنکھ میں اِن خوبصورت پلوں کو قید کر یادگار بنا لیتا۔
مینو بھی نیلم سے ہل مل گئی تھی۔ وہ نیلم کے ساتھ بال سے خوب کھیلتی۔ دودھ بھی وہ نیلم کے ساتھ پینا پسند کرتی۔ نیلم سونے کے لئے اپنے بیڈ پر لیٹتی تو مینو بھی خاموشی سے آکر اُس کے قریب ہی سو جاتی۔ نیلم کی معصومیت اور مینو کی شرارت نے گھر کی خوشیاں دو بالا کر دیں....
ہفتے کا دن تھا۔ نعمان کی پھوپی زاد باہر گاؤں سے آئی ہوئی تھیں۔ ملنے ملانے والوں کی آمدورفت اور چہل پہل نے خُوب رنگ جما رکھا تھا۔ گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس نیلم اگر چہ پھول کی مانند دکھائی دے رہی تھی لیکن چہرے کی تازگی اور شگفتگی غائب تھی۔ مہمانوں کی بھیڑ میں اُسے خاندان کے سبھی افراد نظر آرہے تھے سوائے اپنے چاچو اور مینو کے۔ وہ پینگوئن کی طرح چلتی سارے گھر میں اُنہیں تلاش کر رہی تھی۔ کھلونے، پھل، دودھ اور بسکٹس ہونے کے باوجود وہ اُداس تھی۔ اِسی اُداسی میں وہ کچھ کھا پی بھی نہیں رہی تھی۔ نعمان مینو کو لے کر اپنے ایک دوست کے گھر چلا گیا تھا جسے بلیاں پالنے کا شوق تھا۔ شام ڈھلے جب وہ واپس آیا تو اُس کی بھابھی نے اُسے بتایا کہ نیلم کو تیز بخار ہے۔ ڈاکٹر دیکھ کر جا چکا ہے۔ نیلم کو دوائی بھی پلا دی گئی ہے۔ لیکن افاقہ اب تک نہیں ہوا۔ نعمان فوراً نیلم کے کمرے کی طرف بڑھا۔ کمرے میں سبھی افراد جمع تھے۔ نیلم غنودگی میں کچھ بڑ بڑا رہی تھی۔ بخار کی شدت سے اُس کا چہرہ سُرخ ہو رہا تھا۔ اچانک آئی آفت نے سبھی کا ذہن ماؤف کر دیا۔ کسی کے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں.... مہمانوں کی خوشیاں ماند پڑ گئیں۔
نعمان دیر تک پریشان رہا پھر کچھ سوچ کر باہر چلا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد جب واپس آیا تو اُس کے ہاتھ میں مینو تھی۔ مينو نے کمرے میں آتے ہی ’’میاؤں میاؤں‘‘ کی گردان شروع کردی۔ آواز پر نیلم نے جھٹ آنکھیں کھول دیں۔ سامنے اپنی ماؤں کو دیکھ کر وہ اُٹھ بیٹھی۔ مینو منہ بسور کر اور آنکھیں میچ میچ کر نیلم کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اُس کی بیماری سے دکھی ہے اور اُس کی مزاج پرسی کو آئی ہے۔
نیلم کے چہرے پر بشاشت لوٹ آئی۔ دادی ماں نے آگے بڑھ کر نیلم کی پیشانی کو چھوا۔ اُس کا بخار اُتر چکا تھا۔ وہ خوش ہوئیں اور پھر پلّو سے آنسو پونچھتے ہوئے بولیں، ’’ نیلم کی بلّی تو بڑی ڈاکٹرنی نکلی....!‘‘ اِس پر ہنسی کے چشمے پھوٹ پڑے اور پورا کمرہ خوشی سے چہکنے لگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK