مالک اور کرایے دار کے ہم نام ہونے کی وجہ سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں، جسے بڑے مزیدار انداز میں اِس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔
صبح کے نو بجے تھے۔ مَیں دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ ملازم نے پروفیسر محمود کے آنے کی خبر دی۔ پروفیسر محمود میرے پُرانے ملنے والے تھے۔ عمر، تجربے اور علم میں مجھ سے کہیں زیادہ ہونے کے باوجود میرے ساتھ اُن کا برتاؤ بالکل دوستوں جیسا تھا مجھ سے وہ بڑی محبّت کرتے تھے اور اکثر ملنے کیلئے خود ہی میرے گھر پر چلے آتے تھے۔ بہت دن سے اُن سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی، اسلئے اس وقت اُن کے آنے سے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔
جب میں ملاقاتی کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، اُن کے ساتھ ایک صاحب اور تھے۔ خوبصورت اور پُروقار چہرے والے وہ صاحب عمر میں میرے برابر ہوں گے۔ پروفیسر محمود اُن کا تعارف کراتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے ’’لیجئے سہیل صاحب، ہمارے کالج کے نئے ساتھی اور اپنے ہم نام پروفیسر سہیل سے ملئے۔‘‘
مَیں چونکا اور پھر مَیں نے بڑی گرم جوشی سے پروفیسر سہیل سے ہاتھ ملایا۔ دو چار رسمی جملوں کے بعد ہم اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے باتوں ہی باتوں میں مجھے اندازہ ہوا کہ پروفیسر سہیل بڑے ہنس مکھ اور سلجھی ہوئی طبیعت کے آدمی ہیں۔ اچانک پروفیسر محمود مجھ سے بولے ’’اس وقت مَیں آپ کے پاس ایک ضرورت سے آیا ہوں۔‘‘
’’فرمایئے۔ مَیں ہر خدمت کے لئے حاضر ہوں۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’پروفیسر سہیل کو کرایے کے مکان کی ضرورت ہے۔ آپ کا دوسرا مکان آج کل خالی پڑا ہے۔ اگر آپ وہ دے دیں تو مہربانی ہوگی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کل مکان کرایے پر ملنا کتنا مشکل ہے۔‘‘
مَیں اپنے مہمانوں کی ضرورت کے بارے میں جان کر چونک پڑا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ پروفیسر محمود مجھے ٹوکتے۔ ملازم نے آکر بتایا کہ کوئی صاحب مجھے ٹیلی فون پر پوچھ رہے ہیں۔ مَیں پروفیسر محمود اور پروفیسر سہیل سے اجازت لے کر فون والے کمرے کی طرف چل دیا۔
میرا نام سہیل احمد ہے۔ مَیں ایک فیکٹری میں منیجر ہوں میرے پاس دو مکان ہیں، دونوں مکان ایک ہی محلے میں ہیں لیکن دونوں کے بیچ میں دس بارہ مکان کا فاصلہ ہے۔ ایک مکان میں خود ایک ملازم کے ساتھ رہتا ہوں اور دوسرے کو کبھی کبھی کرایے پر اُٹھا دیتا ہوں۔ ایک سال پہلے کی بات ہے کہ مَیں نے یہ مکان ایک صاحب کو کرایے پر دیا تھا۔ وہ ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے اور کسی دوسری جگہ سے تبدیل ہو کر آئے تھے۔ نیک اور خوش اخلاق آدمی تھے۔ لیکن انہیں مکان کرایے پر دینے کے بعد میرے لئے بڑی پریشانیاں پیدا ہوگئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے ہم نام تھے یعنی ان کا نام بھی سہیل احمد تھا، جب وہ مکان میں آکر رہنے لگے تو اُن کے جان پہچان والے اُن سے ملنے کیلئے آنے لگے۔ یہ جان پہچان والے ان کا مکان نہیں جانتے تھے، اسلئے دوسرے لوگوں سے پوچھتے تھے، کرایے دار صاحب چونکہ نئے نئے محلے میں آکر رہے تھے، اسلئے بہت کم لوگ انہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے زیادہ تر ملنے والوں کو لوگ میرا پتہ بتا دیتے تھے۔ جب یہ لوگ میرے پاس آتے تھے تو انہیں اپنے کرایے دار صاحب کے پاس پہنچانے کو اپنا فرض سمجھ کر مجھے ملازم کو اُن کے ساتھ کرنا پڑتا تھا۔
اکثر ایسا ہوتا کہ مَیں کہیں باہر جاتا، واپس آتا تو معلوم ہوتا کہ کوئی صاحب ملاقاتی کمرے میں مجھ سے ملنے کے لئے بیٹھے ہیں۔ (یہاں مَیں ایک بات اور بتاتا چلوں۔ میرا ملازم آٹھویں جماعت تک پڑھا ہوا ہے۔ لیکن اتنی کم تعلیم پانے کے باوجود دوسروں کے دل میں گھر کرنے کے گُر خوب جانتا ہے۔ چنانچہ میری واپسی سے پہلے ہی وہ مہمان کی اچھی طرح خاطر تواضع کر چکا ہوتا تھا۔) بہرحال جب مَیں ان صاحب سے ملاقات کرنے کے لئے ملاقاتی کمرے میں پہنچتا تو معلوم ہوتا کہ وہ مجھ سے نہیں، میرے کرایے دار سہیل احمد سے ملنا چاہتے ہیں اور مَیں خاموشی سے ملازم کو ان کے ساتھ کر دیتا کہ وہ انہیں صحیح مکان پر چھوڑ آئے۔
اگر کبھی غلطی سے میرے کرایے دار صاحب کا کوئی ایسا ملنے والا میرے پاس آجاتا جو اُن سے پہلی بار ملنے آیا ہوتا تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی۔ کافی دیر تک وہ شخص یہ سمجھتا رہتا کہ وہ صحیح آدمی سے بات کر رہا ہے۔ اور مَیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا کہ یہ شخص واقعی مجھ سے ملنے آیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بار کا ذکر ہے۔ شاید نومبر کے پہلے اتوار کی صبح تھی۔ مَیں آنگن میں کرسی ڈالے دھوپ سینک رہا تھا۔ اچانک مکان کے باہر کسی موٹر کے رُکنے اور ہارن کے بجنے کی آواز سنائی دی۔ ملازم کہیں گیا ہوا تھا اس لئے مَیں نے خود باہر نکل کر دیکھا۔ دروازے کے سامنے ایک خوبصورت کار کھڑی تھی۔ اس میں صرف اگلی سیٹ پر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا جو وردی سے ڈرائیور معلوم ہوتا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنا سَر کھڑکی سے باہر نکال کر پوچھا ’’آپ سہیل صاحب ہیں؟‘‘ مَیں نے گردن کے اشارے سے ’ہاں‘ کہا۔ ’’صاحب نے کہا ہے کہ انہوں نے جو کاغذ آپ کو ٹائپ کرنے کو دیئے تھے، وہ لے کر گھر پر آجایئے۔‘‘ ڈرائیور نے کہا۔ ’’کون صاحب؟ کیسے کاغذ؟‘‘ مَیں نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’آپ شاید مجھے پہچانتے نہیں۔‘‘ ڈرائیور نے مسکرا کر کہا۔ ’’اصل میں جو ڈرائیور صاحب کو دفتر لے جاتا ہے، وہ دوسرا ہے۔ مَیں ان کی دوسری کار کا ڈرائیور ہوں۔‘‘ مَیں اب بھی کچھ نہیں سمجھا اور ڈرائیور سے بحث کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں ساری بات میری سمجھ میں آگئی اور مَیں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ غلط آدمی کے پاس آگیا ہے، اُسے جن سہیل احمد سے ملنا ہے، وہ مَیں نہیں، میرے کرایے دار ہیں۔ پھر مَیں نے اُسے کرایے دار صاحب کا پتہ بتا کر رخصت کر دیا۔
دن اسی طرح اُلٹ پھیر میں گزرتے رہے۔ ایک شام کو مَیں دفتر سے واپس آیا تو ملازم نے بتایا کہ میرے چچا کا تار آیا ہے، وہ سخت بیمار ہیں اور مجھے فوراً بلایا ہے۔ مَیں نے ملازم سے تار مانگا۔ وہ تار لینے گیا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد آکر بتایا کہ تار اِدھر اُدھر ہوگیا ہے اور مل نہیں رہا ہے۔ مَیں نے اس سے تار دینے والے کا نام پوچھا تو اس نے ارشد بتایا۔ میرے چچا زاد بھائی کا نام راشد ہے مَیں نے خیال کیا کہ ملازم کو نام ٹھیک سے یاد نہیں رہا ہوگا۔ چچا لکھنؤ میں رہتے تھے۔ مَیں اسی روز رات کی گاڑی سے وہاں کے لئے روانہ ہوگیا اگلی صبح مَیں لکھنؤ میں تھا۔ اسٹیشن سے رکشا کرکے چچا کے مکان پر پہنچا۔ گھر والے مجھے اچانک وہاں پا کر بہت خوش ہوئے۔ لیکن میری حیرت کی حد نہ رہی جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ چچا خدا کے فضل سے بالکل خیرت سے ہیں اور کاروبار کے سلسلے میں کہیں باہر گئے ہوئے ہیں اور تار تو مجھے کسی نے دیا ہی نہیں تھا۔ فوراً ہی ایک خیال بجلی کی طرح دماغ میں کوندا کہ ہو نہ وہ تار میرے کرایے دار سہیل احمد کے نام ہوگا پھر گھر والوں کے بہت روکنے کے باوجود میں اسی دن تیسرے پہر کی ٹرین سے واپس ہولیا۔ گھر آیا تو ملازم نے مجھ سے معافی مانگی اور بتایا کہ میرے جانے کے بعد اُسے تار مل گیا تھا اور اسے دوبارہ پڑھنے پر اُسے اپنی غلطی کا پتہ چل گیا تھا۔ تار لکھنؤ کے بجائے کسی دوسری جگہ سے آیا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ تار غلط بٹ گیا ہے، اس کے صحیح مالک میرے کرایے دار سہیل احمد ہیں، اس لئے وہ تار اُن کے حوالے کر آیا تھا۔ ساری بات معلوم ہونے پر مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور ملازم پر غصہ بھی آیا۔ لیکن وہ پہلے ہی معافی مانگ چکا تھا اس لئے مَیں نے خاموش رہ جانا ہی مناسب سمجھا۔
اس واقعہ کے بعد مَیں کافی ہوشیار رہنے لگا۔ پھر بھی کبھی نہ کبھی کوئی چھوٹا موٹا حادثہ ہو ہی جاتا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ چھ ماہ بعد ہی کرایے دار صاحب کا تبادلہ کسی دوسری جگہ ہوگیا۔ اور وہ مکان چھوڑ کر چلے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد مَیں نے سوچ لیا تھا کہ کسی ایسے شخص کو مکان نہیں دوں گا (دوسرے لفظوں میں محلے میں آباد نہیں ہونے دوں گا) جو میرا ہم نام ہو۔
تھوڑی دیر کے بعد ٹیلی فون پر بات کرکے ملاقاتی کمرے کی طرف واپس ہوا۔ جہاں پروفیسر محمود اور پروفیسر سہیل میرا انتظار کر رہے تھے۔ اس دوران میں مَیں یہی سوچتا رہا کہ پروفیسر سہیل کو مکان کرایے پر دینے سے انکار کرکے پروفیسر محمود جیسے ملنسار اور محبت کرنے والے شخص کا دل توڑ دوں یا مکان دے کر اپنے لئے پھر پہلی جیسی پریشانیاں مول لے لوں۔ کمرے تک پہنچتے پہنچتے مجھے کسی کا یہ قول یاد آگیا ’’آدمی وہ ہے جو اپنے سے زیادہ دوسروں کی پریشانیوں کا خیال رکھے۔‘‘ اس قول کے یاد آتے ہی میرے دماغ میں پھیلا ہوا اندھیرا روشنی میں نہا گیا۔
مَیں کمرے میں داخل ہوا تو ملازم چائے لگا چکا تھا۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے مَیں نے ایک بار پھر پروفیسر محمو اور پروفیسر سہیل سے اپنی غیر حاضری کی معافی مانگی اور پیالیوں میں چائے بنانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد چائے کی چسکیوں کے درمیان باتوں کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا، وہیں سے پھر شروع ہوگیا۔
’’ہاں سہیل صاحب آپ نے جواب نہیں دیا مکان کے سلسلے میں؟‘‘ پروفیسر محمود مجھ سے بولے۔ ’’پروفیسر صاحب آپ تو صرف میرا خالی مکان کرایے پر مانگ رہے ہیں۔ آپ کے لئے تو مَیں اپنا یہ مکان بھی چھوڑ سکتا ہوں۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔ ’’شکریہ سہیل صاحب۔ مجھے آپ سے یہی اُمید تھی۔‘‘ پروفیسر محمود گرمجوشی سے بولے۔
تھوڑی دیر کے بعد مَیں نے مکان کی چابی پروفیسر سہیل کے حوالے کر دی۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا اور اسی روز مکان میں آجانے کے لئے کہہ کر پروفیسر محمود کے ساتھ واپس چلے گئے۔
اُن کے جانے کے بعد مَیں اس سوچ میں ڈوب گیا کہ آئندہ پیش آنے والی پریشانیوں سے بچنے کے لئے مجھے کس کس طرح احتیاط برتنے کی ضرورت پڑے گی۔