• Wed, 10 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شیرو

Updated: September 10, 2025, 3:09 PM IST | Tahir Saeed | Mumbai

’’ڈیڈی... ڈیڈی.... بتایئے میری مٹھی میں کیا ہے۔‘‘ مَیں دوڑ کر کمرے میں آیا.... ابّا جان صوفہ پر بیٹھے تھے۔ ان کے ہاتھ میں تازہ اخبار تھا شاید وہ سرخیاں پڑھ چکے تھے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’ڈیڈی... ڈیڈی.... بتایئے میری مٹھی میں کیا ہے۔‘‘ مَیں دوڑ کر کمرے میں آیا.... ابّا جان صوفہ پر بیٹھے تھے۔ ان کے ہاتھ میں تازہ اخبار تھا شاید وہ سرخیاں پڑھ چکے تھے۔ انہوں نے میری آواز سنی تو اخبار قریب کی میز پر رکھ دیا.... میں ان کے نزدیک آیا اور مسکرا کر اپنا بایاں ہاتھ ان کی طرف بڑھایا انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔
 ’’بھلا میں کیسے بتا سکتا ہوں.... کیا میرا بیٹا اپنے بوڑھے باپ کو نجومی سمجھتا ہے۔‘‘ ڈیڈی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ڈیڈی.... پھر آپ نے اپنے آپ کو بوڑھا کہا.... جایئے میں آپ سے نہیں بولتا۔ دادا جان کو سب بوڑھا بوڑھا کہتے تھے۔ وہ کتنی جلدی دنیا سے چلے گئے.... اب آپ بھی کیا مجھے اکیلا....‘‘ میری آواز بھرا گئی، میں آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ ’’ارے مَیں تو تجھے چھیڑ رہا تھا.... بیوقوف برا مان گیا.... اچھا وعدہ.... آئندہ نہیں کہوں گا۔‘‘ ڈیڈی نے مجھے سینہ سے لگا لیا۔
 ’’اچھا تو بتایئے میری مٹھی میں کیا ہے؟‘‘
 ’’اگر بتا دیا تو کیا انعام دو گے؟‘‘
 ’’جو کچھ میری مٹھی میں ہے وہ آپ کا.... اگر نہیں بتا سکے تو میری ایک شرط پوری کرنا پڑے گی۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’بھلا کیا شرط ہے وہ۔‘‘ ڈیڈی نے پوچھا۔ ’’بعد میں بتاؤں گا.... پہلے آپ بتایئے۔‘‘ مَیں نے مٹھی ڈیڈی کی طرف بڑھا دی۔
 ’’اچھا ذرا دیکھوں تو سہی۔‘‘ ڈیڈی نے میری مٹھی اپنے ہاتھ میں لے کر آہستہ سے دبائی.... پھر اپنے کان کے قریب لے جا کر کچھ سننے کی کوشش کرنے لگے۔ ’’آہا.... سمجھ گیا....‘‘ یکایک ڈیڈی خوشی سے چلّا پڑے۔
 ’’تو پھر بتایئے نا۔‘‘ مَیں نے گھبرا کر کہا۔ مجھے ڈر ہوا کہ اگر ڈیڈی نے ٹھیک ٹھیک بتا دیا تو میرا سارا پلان مٹی میں مل جائے گا۔ ’’تمہاری مٹھی میں ہاتھی کا بچہ ہے۔‘‘ ڈیڈی نے قہقہہ لگایا۔ ’’ہاتھی کا بچہ....؟‘‘ مَیں نے چونک کر کہا۔ ’’ہاں سو فیصد ہاتھی کا بچہ ہے....‘‘ ڈیڈی نے ہنستے ہوئے کہا۔
 ’’ہاتھی کا بچہ.... اور وہ بھی میری مٹھی میں....‘‘ میں نے سوچا اور میری سمجھ میں آگیا کہ ڈیڈی مجھے بنا رہے ہیں۔ ’’جایئے.... ہم آپ سے نہیں بولتے۔‘‘ مَیں جھوٹ موٹ روٹھ گیا۔ ’’اچھا تو تم ہی بتاؤ۔ بھئی اپنی تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ ڈیڈی نے کہا۔ ’’تو پھر ڈیڈی آپ ہار گئے....‘‘ مَیں نے خوش ہو کر کہا۔ ’’ہاں بالکل ہار گئے، جھک مار گئے۔‘‘ ’’تو دیکھئے....‘‘ مَیں نے اپنی مٹھی کھول دی۔ میرے ہاتھ میں ڈیڈی اپنی کھوئی ہوئی گھڑی دیکھ کر خوشی سے اُچھل پڑے۔ ’’ارے تجھے یہ کہاں ملی۔‘‘ ڈیڈی نے گھڑی اٹھائی اسے اُلٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ گھڑی پر زنگ کی ہلکی سی تہہ جم گئی تھی۔ ’’ڈیڈی ابھی باہری کمرے کا فرش مزدور کھود رہے تھے۔ میں وہاں موجود تھا۔ مجھے ایک سوراخ میں یہ دکھائی دی اور بس۔ میں آپ کے پاس لے آیا۔ شاید چوہے لے گئے ہوں۔‘‘
 ’’اچھا تو ڈیڈی میری شرط بھی پوری کر دیجئے۔‘‘ ’’کیا شرط ہے؟‘‘ ’’وہ آپ کے دوست داروغہ جی ہیں نا.... ان کے گھر کئی الیشین کتّے کے پلّے ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک پِلّا دینے کا وعدہ کیا ہے، مَیں اسے گھر لے آؤں.... کہئے اجازت ہے۔‘‘ ’’اجازت ہے....‘‘ ڈیڈی نے اس طرح رعب سے کہا جیسے وہ کوئی بادشاہ ہوں۔
 میں خوشی سے کھل اُٹھا اور داروغہ جی کے مکان کی طرف دوڑ پڑا۔ جب میں واپس آیا.... ڈیڈی دفتر جا چکے تھے۔ پلّے کو دیکھتے ہی ممی کا پارہ چڑھ گیا۔ ’’یہ کیا مصیبت لے آیا۔ اللہ توبہ اپنے ہاتھ گندے کر لئے....‘‘ ممی غصہ سے چلّائیں۔
 ’’ممی یہ مصیبت نہیں.... بڑی اونچی ذات کا کتّا ہے.... ہماری اتنی بڑی کوٹھی ہے بڑا ہوگا تو رات کو حفاظت کیا کرے گا۔ چوروں کے تو یہ کتّے دشمن ہوتے ہیں.... ہاتھوں کا کیا ہے صابن سے دھو ڈالوں گا.... صاف ہوجائیں گے....‘‘ میں نے ممی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
 ’’جانتا نہیں جس گھر میں کتّا ہوتا ہے نیکی کے فرشتے نہیں آتے.... کس سے لایا ہے؟ ابھی جا کر واپس کر ورنہ تیری خیر نہیں....‘‘ ممی نے تیز آواز سے کہا۔ ان کا چہرہ غصہ سے سُرخ ہوگیا اور مَیں ڈر سے کانپنے لگا۔
 ’’ممی میں نے ڈیڈی سے پوچھ لیا ہے۔‘‘ میں رو پڑا.... ممی کا سارا غصہ میرے آنسوؤں کی روانی میں بہہ گیا۔ انہیں مجھ سے بے حد پیار تھا اور ہوتا بھی کیوں نہیں میں ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔
 ’’آنے دے اپنے ڈیڈی کو.... ان سے پوچھوں گی.... ان ہی نے تجھے بگاڑا ہے۔‘‘ ممی کا لہجہ نرم ہوگیا میں نے آنسو پونچھ ڈالے۔
 میرے کہنے پر ملازم شفن نے پلّے کو ایک پیالی میں دودھ دیا۔ پلا دودھ پی چکا تو میں نے اسے رسّی سے کوٹھی کے صحن میں ایک پیڑ سے باندھ دیا.... میری کوٹھی کے صحن میں ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا جس میں نیم، جامن اور بیری کے پیڑ تھے کئی پھولوں کے پودے بھی اُگے تھے میں نے سوچا پلّے کے لئے یہ جگہ مناسب ہے، دھوپ سے بچت ہے گھنی چھایہ ہے گرمی کے دن ہیں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ملتی رہے گی۔
 سویرے میں بستر سے اٹھا مجھے ڈر تھا کہ کہیں ڈیڈی بھی ممی کے کہنے پر کتّے کے خلاف نہ ہوگئے ہوں.... عادت کے مطابق ممی اور ڈیڈی کو آداب عرض کیا.... پھر منہ ہاتھ دھو کر ڈیڈی کے ساتھ ناشتہ میں شامل ہوگیا.... ناشتہ کے بعد پلّے کو دودھ پلایا لیکن ممی نے پلّے کو گھر سے نکالنے کو نہ کہا۔ شاید ڈیڈی نے انہیں سمجھا دیا تھا۔
 میرے ڈیڈی پلّے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے پلّے کے کتھئی رنگ، ریشم کی طرح ملائم بال اور چھوٹی سی دم کی بہت تعریف کی اور شفن سے تاکید کر دی کہ وہ پلّے کی اچھی طرح دیکھ بھال کرے۔ تمہارا کتّا تو بالکل شیر ہے.... ڈیڈی نے پلّے کے جسم پر ہاتھ پھیر کر کہا اور میری سمجھ میں پلّے کا نام آگیا میں نے اسے شیرو کہنا شروع کر دیا تاکہ وہ شیر کی طرح نڈر اور بہادر ہو۔
 ایک سال بیت گیا۔
 میری عمر دس سال کی ہوگئی.... شیرو بھی بڑا ہوگیا.... وہ میرے ساتھ گیند کھیلتا.... شفن اس کی آنکھیں اپنے ہاتھ سے بند کرتا میں چپکے سے کسی کمرے میں جا چھپتا.... شیرو کی آنکھیں کھولی جاتیں وہ مجھے سامنے نہ پا کر ڈھونڈنا شروع کر دیتا اور نہ جانے کس طرح زمین سونگھتا ہوا مجھ تک آپہنچتا.... میں اسے اپنے پاس دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاتا وہ چکر کاٹ کر ناچنے لگتا.... لیکن ممی کو ہمارا کھیل بالکل پسند نہ آتا۔ وہ کبھی خوش نہ ہوتیں ہمیشہ برا ہی کہتیں مگر ڈیڈی بہت خوش ہوتے۔
 میں تمام دن شیرو کو بندھا رکھتا.... رات کو دروازے بند ہونے پر اسے کھولتا.... وہ ساری رات ادھر ادھر دوڑتا پھرتا.... معمولی سا کھٹکا ہوا اور شیرو کی آواز گونجی اور رات کے سناٹے کو چیر گئی.... کبھی شیرو کے بھونکنے پر ممی کی آنکھ کھل جاتی تو غضب ہوجاتا۔
 ’’کم بخت نے نیند حرام کر دی ہے.... رات بھر بھونکتا ہے.... حلق بھی نہیں دکھتا کلموئے کا.... آرام کی نیند سو بھی نہیں سکتے....‘‘ ممی بڑبڑانے لگتیں ان کی آواز پر ڈیڈی کی آنکھ کھلتی تو وہ ممی کو سمجھا کر خاموش کر دیتے۔
 ایک بار ممی چارپائی پر لیٹی تھیں، ان کا ہاتھ پلنگ کی پٹی پر تھا شیرو میرے ساتھ کھیلتا کھیلتا ادھر سے گزرا تو اس کا جسم ممی کے ہاتھ سے چھو گیا.... پھر کیا تھا.... آفت آگئی.... ممی نے پہلے تو شیرو کو خوب کوسا پھر بید سے جی بھر کے مرمت کی.... کئی کئی مرتبہ صابن سے ہاتھ دھوئے تو کہیں غصہ ٹھنڈا ہوا۔ اس دن کے بعد کبھی شیرو ممی کے قریب سے نہ گزرا۔
 ایک دوپہر ممی پڑوس میں کسی سہیلی سے ملنے گئی تھیں ڈیڈی دفتر تھے۔ شفن سودا لینے بازار گیا تھا، صرف میں اور شیرو کوٹھی میں تھے۔ میں شیرو سے کھیل رہا تھا۔ چارپائیاں دھوپ میں پڑی تھیں تاکہ کھٹملوں کی فوج تیز گرمی سے جھلس کر رہ جائے.... زمین پر آرام کرنے کے لئے فرش کر دیا گیا تھا۔ کھیلتے کھیلتے مجھے تھکن محسوس ہوئی میں فرش پر لیٹ گیا۔ شیرو مجھ سے کچھ فاصلہ پر زمین پر دراز ہوگیا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میرا جسم پسینہ میں شرابور تھا.... پسینہ خشک ہونے لگا.... ہوا مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی.... میری آنکھیں اپنے آپ ہی بند ہونے لگیں اور مجھے نیند آگئی۔
 نہ معلوم کتنی دیر بعد ممی کی ایک چیخ نے مجھے جگا دیا۔ ’’کیا بات ہے ممی....‘‘ میں نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’وہ.... وہ....‘‘ ممی نے میری بائیں طرف اشارہ کیا.... وہ آگے کچھ نہ کہہ سکیں ان کا جسم تھرتھر کانپ رہا تھا۔ میں نے مڑ کر دیکھا.... شیرو زمین پر لیٹا تھا اس سے کچھ دور ایک کالا سانپ پڑا تھا۔
 ’’ارے شیرو اٹھ.... ممی سانپ؟‘‘ میں ممی سے لپٹ گیا۔ ’’ڈرو نہیں بیٹے.... تمہارے شیرو نے سانپ کو مار دیا ہے۔ شاید یہ تمہاری طرف آرہا تھا۔ شیرو نے وفاداری کا حق نبھا دیا لیکن سانپ کے زہر نے وفادار شیرو کو بھی ڈس لیا.... وہ بھی مر چکا ہے۔‘‘ ممی نے کہا۔
 ’’شیرو.... میرے شیرو....‘‘ میں چیخ چیخ کر رونے لگا۔ ممی نے مجھے گود میں اٹھا لیا۔ اچانک میری نظر ممی کے چہرے پر پڑی میں تعجب میں رہ گیا ممی کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے وہ آہستہ سے کہہ رہی تھیں: ’’شیرو.... میں نے تجھے بہت ستایا ہے مجھے معاف کر دینا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK