پنڈت جواہر لعل نہرو بیسویں صدی کی عظیم شخصیت تھے جنہیں ہم پیار سے ’’چاچا نہرو‘‘ کہتے ہیں۔ اُن کی پیدائش ۱۴؍ نومبر ۱۸۸۹ء کو الٰہ آباد میں ہوئی۔
ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو بچوں سے کتنی محبّت تھی، اس کا اندازہ اس تصویر سے لگایا جاسکتا ہے۔ تصویر:آئی این این
پنڈت جواہر لعل نہرو بیسویں صدی کی عظیم شخصیت تھے جنہیں ہم پیار سے ’’چاچا نہرو‘‘ کہتے ہیں۔ اُن کی پیدائش ۱۴؍ نومبر ۱۸۸۹ء کو الٰہ آباد میں ہوئی۔ اس تحریر میں اُن کے طالب علمی کے زمانے کے واقعات اور سائنسی رجحات کے بارے میں مفصل بتایا جارہا ہے:
گھر میں لیباریٹری بنائی
بچپن میں پڑھنے کیلئے وہ کسی اسکول میں نہیں گئے بلکہ گھر ہی پر اُن کو اُستاد پڑھانے کیلئے آتے تھے۔ پڑھانے والے اُستادوں میں اُن پر سب سے زیادہ اثر فرڈی نینڈ ڈی برکس کا پڑا۔ وہ آئر لینڈ کے رہنے والے تھے۔ جب نہرو کی عمر گیارہ سال کی تھی اس وقت برکس نے انہیں پڑھانا شروع کیا۔ برکس نے نہرو کے دل میں سائنس کے رازوں کے بارے میں جاننے کیلئے بلا کا شوق اور بے چینی پیدا کی۔ اور نہرو نے اُن کی مدد سے گھر میں ہی ایک چھوٹی سی لیباریٹری بنائی اور اُس میں وہ طرح طرح کے تجربے کرنے لگے۔ اس سے اُن کی دلچسپی سائنس میں بہت زیادہ ہوگئی اور یہیں سے ان کے دماغ میں سائنسی خیالات نے جگہ بنانی شروع کی۔ اُس تجربہ گاہ میں انہوں نے اپنے اُستاد سے طبیعات (فزکس) اور کیمیا (کیمسٹری) کے ابتدائی سبق کو سیکھا۔ سائنس کی نئی اور تعجب خیز باتیں کم عمر نہرو کے دل میں ایسی سما گئیں کہ ان کے دل میں نئی دنیا کے دروازے کھل گئے اور نہرو نے اپنی آنے والی زندگی میں ان باتوں کو سامنے رکھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب نہرو میں گہرائی کے ساتھ مطالعے کا شوق پیدا ہوا اور سائنس کی کتابوں کو بڑی دلچسپی سے پڑھنے لگے اس طرح اُن میں نئے کام کرنے، نئی مشکلوں کو حل کرنے کا جذبہ پیدا ہوا جس سے انہیں اپنی زندگی میں بڑا فائدہ پہنچا۔
ولایت میں پڑھائی
اُن کے والد موتی لعل نہرو صرف علم کی دولت سے ہی مالا مال نہ تھے بلکہ اونچے خیالات کے ساتھ مشہور بیرسٹر بھی تھے۔ ان کی والدہ سروپ رانی اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتی تھیں لیکن ان کے والد کی بڑی خواہش تھی کہ جواہر لعل نہرو کسی یونیورسٹی میں جانے سے پہلے کسی انگریزی اسکول میں تعلیم ضرور حاصل کریں۔ یہی وجہ تھی کہ ۱۹۰۵ء میں اُن کے والد نے نہرو کو پندرہ سال کی عمر میں ولایت تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجا۔ ولایت میں طالب علمی کے زمانے میں ہی سائنس پر اُن کا یقین پختہ ہوگیا تھا اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ اس وقت ولایت میں سائنسی انقلاب بے حد زوروں پر تھا اور سائنس وہاں کی زندگی کے طور طریقوں کو بہت تیزی کے ساتھ بدل رہی تھی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی مشہور عالم کتاب ’’تاریخ کی ایک جھلک‘‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’والد صاحب کار کے بغیر زندگی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے جبکہ کار کی ایجاد کو ابھی پچاس سال بھی نہیں گزرے تھے۔ کیونکہ ۱۸۸۵ء میں ڈیملر نے انجن لگا کر (جو اب موٹر میں استعمال ہوتا ہے) اپنی سائیکل چلائی۔ اس بات کو ابھی پچاس سال نہیں ہوئے ہیں کہ امریکہ کے صدر روز ویلٹ اس نئی ایجاد ہوئی کار میں بیٹھے جس کے پیچھے ایک خالی گھوڑا گاڑی بھی اس لئے چل رہی تھی کہ اگر کار بگڑ جائے تو وہ گھوڑا گاڑی پر بیٹھ کر جاسکیں۔‘‘
ہوائی جہاز میں بیٹھنے کی خواہش
طالب علمی کے زمانے میں ہی جواہر لعل نہرو کو جہاز کی ترقی سے بیحد دلچسپی پیدا ہوگئی تھی۔ ۱۹۰۹ء میں جب وہ اپنے والد کے ساتھ برلن گئے تھے وہاں اُنہوں نے سب سے پہلے ہوائی جہاز کو اُڑتے دیکھا تھا۔ انہیں یہ بات نہایت عجیب معلوم ہوئی تھی کہ انسان زمین کی سطح سے دور چڑیوں کی طرح بغیر پَروں کے کافی تیز رفتاری سے جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے اُڑ سکتا ہے اور اوپر نیچے چکر لگا سکتا ہے۔ اُن کے دل پر اس نئی ایجاد کا بڑا گہرا اثر پڑا تھا اور وہ ہوا میں اُڑنے کے خواہشمند ہو گئے تھے۔ اسکا ذکر نہرو نے اپنے والد کو خط میں لکھ کر اس طرح کیا تھا ’’میری بڑی خواہش ہے کہ ایک دن کی چھٹی میں ہی ہوائی جہاز میں بیٹھ کر ولایت سے ہندوستان جا کر واپس لوٹ آؤں۔‘‘ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نہرو کا طالب علمی کا دور نئی سائنس کی ایجادوں کا زمانہ تھا۔
کیومڈش لیباریٹری میں کام کرنے کا موقع ملا
نہرو ۱۹۰۵ء میں ہیرو کالج میں داخل ہوئے تو اس سے ایک سال پہلے ہی ۱۹۰۴ء میں اٹلی کے مشہور سائنسداں مارکونی نے اپنی ریڈیو بلب کی ایجاد کو پیٹنٹ کرایا تھا۔ ۱۹۰۸ء میں روس کے مشہور سائنسداں پیولو کو اپنی عضویائی (جسمانی) سائنسی کی دریافت پر نوبیل انعام ملا تھا۔ اُس وقت نہرو کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ ۱۹۰۷ء میں نہرو سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور انہوں نے مطالعہ کیلئے علم کیمیا (کیمسٹری)، علم حیوانات (زولوجی) اور علم نباتات کے مضامین کا انتخاب کیا۔ خالی وقت میں وہ کتابیں پڑھتے تھے یا ٹینس اور کرکٹ کھیلتے تھے۔ جب اُنہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کی مشہور کیومڈش لیباریٹری میں کام کرنا شروع کیا تو وہاں کے ماحول نے اُن کے دل و دماغ پر سائنس کا گہرا اثر چھوڑا کیونکہ اس تجربہ گاہ کی تیاری میں دُنیا کے مشہور سائنسدانوں نے اپنی خدمات انجام دی تھیں۔ نہرو اس تجربہ گاہ کو بیس پچیس سال کے بعد بھی نہیں بھول سکے۔ اس کا اندازہ آپ اُن کے سائنس کانگریس کے اس اہم خطبے سے کرسکتے ہیں جو اُنہوں نے ۱۹۳۷ء میں دیا تھا اُنہوں نے کہا تھا ’’میرا دل کبھی اپنے طالب علمی کی زندگی کے اُن دنوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے جب میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور سائنس کو حاصل کرنے کے لئے کیمبرج یونیورسٹی میں اِدھر اُدھر گھومتا رہتا تھا۔ جبکہ زندگی کے کچھ حالات نے مجھے سائنس سے علاحدہ ہونے پر مجبور کر دیا لیکن پھر بھی بڑی خواہش اور بےچینی کے ساتھ میرے خیالات مسلسل (برابر) اسی جانب لوٹ جاتے ہیں۔‘‘
وکالت سے سیاست تک کا سفر
۱۹۱۰ء میں نہرو نے کیمبرج یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگری حاصل کی یہ کامیابی انہیں سیکنڈ کلاس میں حاصل ہوئی تھی اس کے بعد نہرو نے دو سال تک ولایت میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اُن کی دلچسپی سائنس میں قائم رہی لیکن اپنے والد کی رائے پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ نہرو ۱۹۱۲ء میں جب اپنی تعلیم پوری کرکے وطن واپس ہوئے تو اپنے والد کے اصرار پر وکالت شروع کر دی لیکن اُن کو یہ پیشہ پسند نہ آیا، پسند کیوں ہوتا قدرت تو اُن سے کچھ اور کام لینا چاہتی تھی۔ انہوں نے آزادی کے ماحول میں پرورش پائی تھی اس لئے انہیں ہندوستانی غلامی قطعی گوارہ نہ تھی اور آزادی کیلئے ان کی جدوجہد ہمیشہ یاد رکھے جائے گی۔ ۱۹۴۷ء میں جواہر لعل نہرو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم چنے گئے اور کاؤنسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے صدر بنے، اسی سال سائنسی تحقیق اور قدرتی وسائل کی ایک وزارت کا قیام عمل میں آیا اور وزیر اعظم کی سربراہی میں ایٹمی توانائی کا ایک علاحدہ شعبہ کھولا گیا۔ نہرو ایٹمی توانائی کو ترقیاتی کاموں کیلئے استعمال میں لانا چاہتے تھے۔ یہ انہی کی دلچسپی کا نتیجہ ہے کہ آج ہندوستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں ایٹمی توانائی کے ری ایکٹر سے توانائی حاصل کرکے عوام کیلئے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔
ایک دلچسپ واقعہ
ایک بزرگ شخص نہرو کے یہاں تشریف لائے۔ نہرو نے اُن سے ذکر کیا میرے پاس ایک کھلونا (جو جاپان سے آیا تھا اور ریموٹ سے کنٹرول ہوتا تھا) ہے جو بٹن دباتے ہی اپنے آپ چلتا ہے۔ انہوں نے بھی نہرو سے اس کھلونے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ نہرو اس کھلونے کو دکھانے کیلئے لے آئے لیکن اتفاق کہئے کہ وہ کھلونا اُس وقت نہرو سے نہیں چلا۔ انہیں شرمندگی ہوئی لیکن اُن کے نواسے جن کی عمر دس سال تھی، اس نے دیکھتے ہی اس کھلونے کو دومنٹ میں ہی چلا دیا۔ نہرو نے محسوس کیا کہ واقعی نئی نسل مشین کو مجھ سے زیادہ سمجھتی ہے۔ نہرو میں ایک غیر معمولی بات یہ تھی کہ انہوں نے دُنیا کو سائنسی نظر سے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ سچائی کے ہر پہلو کو دیکھا اُسے سمجھ کر اُس سے جانکاری حاصل کی اور پھر اُسے عوام تک پہنچایا۔ یہی وجہ تھی کہ نہرو کو قدرت سے لگاؤ تھا، وہ جہاں ایک طرف فلسفی تھے تو دوسری جانب سائنسداں کی طرح سوچتے بھی تھے۔