• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غریب بچہ

Updated: September 16, 2023, 12:53 PM IST | Farhan Akhtar bin Sarfaraz Ahmad | Dongri/ Mumbai

ایک بار کی بات ہے۔ ایک غریب لڑکا تھا جو چاہتا تھا کہ مدرسے جاؤں اور تعلیم حاصل کروں ! لیکن اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ مدرسے میں داخلہ لے سکے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

ایک بار کی بات ہے۔ ایک غریب لڑکا تھا جو چاہتا تھا کہ مدرسے جاؤں اور تعلیم حاصل کروں ! لیکن اس کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ مدرسے میں داخلہ لے سکے۔ اس کے والدین كا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔ بچہ یتیم ہو چکا تھا پھر بھی اس کی خواہش تھی کہ پڑھائی کرکے بڑا عالم بنے لیکن پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم سے محروم تھا۔ ایک دن وہ سوچا، کیوں نہ میں ایک کاروبار شروع کروں ۔ ایک آدمی سے اس نے قرض طلب کیا۔ وہ آدمی بہت نیک دل تھا اور ہمیشہ ضرورتمند کی مدد کرتا تھا۔ اس نے اس یتیم بچے کو پیسہ دے دیا۔ اس نے اس رقم سے اخبار کا کاروبار شروع کیا۔ وہ روزانہ صبح صبح اخبار بیچتا۔ اس نے ایک مدرسے میں داخلہ لے لیا لیکن صبح میں اخبار بیچنے کی وجہ سے وہ روزانہ مدرسے تاخیر سے پہنچتا۔ مدرسہ دیر سے پہنچنے کی وجہ سے اس کو روزانہ سزا دی جاتی تھی- لیکن وہ بچہ صبر کرتا۔ لیکن استاد کو يه سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یه بچہ روز دیر سے کیوں اتا ہے؟ اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ ایک دن استاد اس سے پوچھتے ہیں ، ’’بیٹا تم روزانہ اتنی دیر سے مدرسہ کیوں آتے ہو؟‘‘ وہ بچہ الگ الگ بہانے بنانے لگا لیکن استاد کو اس کی باتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ استاد اگلے دن بچے کا پیچھا کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بچہ سائیکل پر بیٹھ کر اخبار بیچ رہا ہے۔
 جس وقت وہ اخبار بیچ رہا تھا اس وقت موسم بہت ہی سخت تھا پھر بھی وہ بچہ محنت و مشقت کے ساتھ اخبار بیچ رہا تھا۔ جب بچہ مدرسہ ایا تو استاد نے کہا، ’’بیٹا! تم میرے قریب آؤ۔‘‘ بچہ استاد کے قریب جاتا ہے اور ہاتھ پھیلا لیتا ہے کہ استاد سزا دیں مگر استاد اس بچے کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں ، ’’بیٹا! تم اخبار کیوں بیچتے ہو؟‘‘ بچے نے کہا، ’’استاد میں بہت غریب ہوں اور میرے والدین اس دارفانی سے کوچ کرچکے ہیں ۔ میں ایک بغیر ماں باپ کا بچہ ہوں لیکن میرا خواب ہے کہ میں ایک بڑا عالم بنوں اسی لئے میں نے گھر گھر اخبار پہنچانے کا کام شروع کیا ہے تاکہ میں ایک اچھے مدرسے میں داخلہ لے سکوں اور اپنا خواب پائے تکمیل تک پہنچا سکوں ۔‘‘ استاد کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا کیونکہ ان کا بچپن بھی ایسے ہی غریبی میں گزرا تھا۔ وہ بھی ایک یتیم ہی تھے۔ ان کے پاس بھی والدین نہیں تھے۔ انہوں نے در بدر کی ٹھوکریں کھائی تھیں ۔ ان کو عالم بنانے میں ان کے استاد کا ہاتھ تھا جو ہر محاذ پر ان کے ساتھ تھے۔ اسی لئے استاد نے بچے سے کہا، ’’بیٹا! آج سے تم گھر گھر اخبار پہنچانے کا کام ہرگز نہیں کرو گے۔‘‘ بچے نے کہا، ’’پھر استاد میری پڑھائی کا کیا ہوگا؟‘‘ استاد نے جواب دیا، ’’بیٹا! آج سے تم میرے گھر پر رہو گے اور تمہاری تعلیم کی ذمے داری میں لیتا ہوں ۔‘‘ اتنا سنتے ہی بچہ بہت خوش ہو جاتا ہے اور استاد کی طویل عمری کی دعا کرتا ہے۔ پھر استاد سوچتے ہیں ، کم از کم میرا بوجھ تو اترا۔ میں نے اپنا وقت غریبی میں گزارا ہے ویسا وقت کسی اور کے ساتھ ہو یه میرے دل کو گوارا نہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK