Inquilab Logo

تقسیم ہند کے بعد پران کو فلموں میں کام نہیں ملا تو وہ ہوٹل میں کام کرنے لگے تھے

Updated: February 18, 2024, 11:21 AM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

پران ممبئی آنے سے قبل لاہور کے ایک معروف فنکار تھے، وہاں پر۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۶ء کے درمیان وہ ۲۲؍فلموں میں اداکاری کر چکے تھے اور ۱۸؍ فلمیں ان کے پاس تھیں۔

A memorable picture of famous actor Pran studying `Dewan Mir`. Photo: INN
مشہور اداکار پران کی ’دیوان میر‘ کامطالعہ کرتی ہوئی ایک یادگار تصویر۔ تصویر : آئی این این

ملک کی آزادی سے پہلے کا زمانہ تھا۔ ہر طرف انگریزی سرکار کا رعب و دبدبہ تھا اور عوام میں ملک کی آزادی کیلئے بیتابی بڑھتی جا رہی تھی۔ ایسے میں بھی کچھ لوگ اپنی شان و شوکت برقرار رکھنے کیلئے انگریزوں کی حمایت کر رہے تھے وہیں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو سرکار کیلئے کام تو کر رہے تھے مگر دل سے اپنے وطن کی آزادی کے خواہاں تھے۔ ایسے ہی ایک شخص لالہ کیول کشن سکند تھے جو اپنےچھوٹے سے کنبے کے ساتھ دہلی کے بلی ماران علاقے میں رہتے تھے۔ 
 لالہ جی سرکاری کاموں کا ٹھیکہ لیا کرتے تھے۔ ان کے یہاں ۱۲؍فروری ۱۹۲۰ء کو پران کشن سکند کی پیدائش ہوئی، جو آگے چل کر ہندوستانی سنیما کے نامور ویلن کے طور پر پہچانے گئے۔ لالہ اپنے سرکاری ٹھیکوں کے سلسلے میں کئی شہروں میں ٹھکانے بدلتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پران کشن سکند کی ابتدائی تعلیم دہلی، میرٹھ، دہرہ دُون اور رام پور جیسے شہروں میں ہوئی۔ انہوں نے رضا ہائی اسکول رام پور سے ہائی اسکول کاامتحان پاس کیا۔ پران کو فوٹوگرافی کا بہت شوق تھا لہٰذا وہ دہلی چلے گئے اور ’داس اینڈ کو‘ اسٹوڈیو میں فوٹوگرافر کی ملازمت کرنے لگے۔ اتفاق سے اس اسٹوڈیو کا ایک یونٹ شملہ میں بھی تھا لہٰذا پران کو شملہ بھیج دیا گیا۔ شملہ میں انہوں نے ایک برس تک کام کیا اور پھر لاہور چلے گئے۔ وہاں بھی وہ بحیثیت فوٹوگرافر ہی کام کر رہے تھے۔ 
 پران کو سگریٹ پینے کا شوق بارہ برس کی عمر ہی سے لگ گیا تھا۔ ایک دن وہ لاہور میں کسی پان والے کی دُکان سے سگریٹ خرید رہے تھے۔ اتفاق سے وہیں لاہور فلم انڈسٹری کے مشہور اسکرپٹ رائٹر ولی محمد ولی بھی موجود تھے۔ انہیں پران کے سگریٹ پینے کا انداز کچھ مختلف لگا، اسلئے وہ اُن کو غور سے دیکھنے لگے۔ ولی صاحب کو اپنی لکھی ایک فلم کی کہانی کا کردار یاد آرہا تھا جو وہ پران میں دیکھ رہے تھے۔ ولی محمد نے پران سے اپنا تعارف کرایا اور وہیں سے ایک کاغذ لے کر اپنا پتہ لکھ کر پران کو دیا اور کہا کہ وہ کسی روز اس پتے پر آکر ان سے ملاقات کریں۔ پران نے وہ کاغذ لے کر رکھ تو لیا مگر زیادہ توجہ نہیں دی۔ 
 کچھ عرصے کے بعد ولی صاحب اور پران کا کسی تقریب میں اتفاقی طور پر آمنا سامنا ہوگیا تو انہوں نے پران سے ملاقات والی بات کو دہرایا۔ پران نے پوچھا کہ وہ کیوں ان سے ملنا چاہتے ہیں ؟ تب ولی صاحب نے بتایا کہ وہ اُن کو فلم میں کام دلوانا چاہتے ہیں۔ پران نے اُن کی اس بات کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا مگر ملاقات کا وعدہ کر لیا۔ 
 ایک دن پران ولی صاحب کے دیئے ہوئے پتے پر پہنچ گئے اور تب ولی محمد صاحب نے پران کو مختصراً فلم ’یملا جٹ‘ کی کہانی کے ویلن کے کردار کے بارے میں بتایا۔ پران کو کہانی پسند آئی، اس طرح وہ فلم میں کام کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یہ واقعہ۱۹۴۰ء کا ہے۔ پران کی پہلی فلم ’یملا جٹ‘ کامیاب ہوئی، جس کے بعد انہوں نے ولی صاحب کے ساتھ بعد میں بھی کئی فلموں میں کام کیا۔ 
 ولی محمد صاحب لاہور میں دَل سُکھ پنچولی کے ’پنچولی اسٹوڈیو‘ میں مستقل ملازمت پر اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نگار اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پران کو پنچولی اسٹوڈیو سے یہ سہولت دلوا دی تھی کہ وہ فرصت کے اوقات میں اپنے فوٹو گرافری کے کام کو جاری رکھ سکتے تھے۔ موتی بی گڈوانی کی ہدایت میں بنی فلم ’یملا جٹ‘ کی کامیابی کے بعد پران نے شوکت حسین رضوی کی فلم ’خاندان‘ سائن کی جس میں ملکۂ ترنم نورجہاں ہیروئن تھیں ۔ پران کی پہلی فلم ’یملا جٹ‘ میں نورجہاں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کر چکی تھیں۔ فلم ’خاندان‘ میں نورجہاں کی عمر صرف ۱۵؍برس تھی اور وہ پران سے قد میں چھوٹی تھیں، لہٰذا دونوں کے کلوز اَپ شاٹ لیتے وقت نورجہاں کو ایک چھوٹے سے اسٹول پر کھڑا کیا جاتا تھا۔ 
 لاہور میں ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۶ء تک وہ ۲۲؍فلموں میں اداکاری کر چکے تھے اور ۱۸؍فلمیں ابھی اُن کے پاس باقی تھیں کہ اسی درمیان ملک کی تقسیم کی وجہ سے ان کے کریئر میں ایک خلا آگیا۔ ۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کی تمام فلمیں غیرمنقسم ہندوستان میں بنی تھیں۔ تقسیم ہند کے وقت پران بمبئی چلے آئے لیکن یہاں کافی عرصے تک انہیں کوئی فلم نہیں ملی۔ تب انہوں نے اپنا کریئر بدلنے کا ارادہ کر لیا اور بمبئی کے مرین ڈرائیو پر ہوٹل ڈیلمار میں ملازمت شروع کر دی اور تقریباً ۸؍ماہ کے بعد بمبئی ٹاکیز میں سعادت حسن منٹو کی سفارش پر اُن کو فلم ’ضدی‘ میں کام مل گیا۔ فلم ’ضدی‘ دیوآنند کی بھی پہلی فلم تھی اور کامنی کوشل اُس فلم کی ہیروئن تھیں۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد پران کو لگاتار فلمیں ملنی شروع ہو گئیں ۔ ۱۹۴۸ء میں ’ضدی‘ کے بعد اُسی سال پران کی ’نیک دل، گرہستی، چنریا، برہن اوربرسات کی ایک رات‘ جیسی فلمیں ریلیز ہوئیں ۔ اب پران کو لگاتار فلمیں مل رہی تھیں اور اُن کی شہرت ہندوستانی سنیما میں بڑھتی جا رہی تھی۔ اگلے ہی برس ۱۹۴۹ء میں اُن کی پانچ فلمیں ’راکھی، پتلی، جنم پتری، بڑی بہن اوراپرادھی‘ ریلیز ہوئیں۔ اِن میں ’بڑی بہن‘ فلم بہت کامیاب رہی اور پران کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ ۱۹۴۹ء میں ولی محمد ولی کی فلم’پُتلی‘ میں ایک بار پھر پران کو موقع ملا۔ ولی صاحب بھی تقسیم کے بعد بمبئی آگئے تھے اور ایک پروڈیوسر کے بطور مہالکشمی ریس کورس کے پاس فیمس اسٹوڈیو میں انہوں نے اپنا آفس بھی بنا لیا تھا۔ اس کے بعد لگاتار بطور ویلن پران صاحب کو فلمیں ملتی رہیں۔ ۱۹۵۲ء میں ولی محمد ولی کی فلم ’زمانے کی ہوا‘ میں ایک بار پھر دونوں کا ساتھ رہا۔ ۱۹۵۳ء میں پران نے پہلی بار راج کپور کے ساتھ فلم ’آہ‘ میں کام کیا۔ یہ اُن کا پہلا شریف آدمی کا کردار تھا، اور تھوڑا الگ قسم کا بھی جو پران نے نہایت مہذب طریقے سے ادا کیا تھا۔ ۱۹۵۵ء میں ’دیوداس، بارہ دری، منیم جی اورآزاد‘ جیسی فلموں میں پران نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور اُن کے چاہنے والوں کی تعداد ہندوستان بھر میں تیزی سے بڑھنے لگی۔ 
 فلم ’آزاد‘ میں پہلی بار اُن کا ساتھ دلیپ کمار کے ساتھ ہوا۔ ۱۹۵۸ء میں دلپ کمار کے ساتھ بمل رائے کی فلم ’مدھومتی‘ میں پران کی اداکاری کو کافی سراہا گیا۔ اسی سال جیمنی فلمز کی ’راج تلک‘ میں بھی پران موجود تھے۔ ۱۹۵۹ء میں بابو بھائی مستری کی ہدایت میں ’بے درد زمانہ کیا جانے‘ اور نانا بھائی بھٹ کی ہدایت میں ’ڈاکہ‘ میں بھی پران نظر آئے۔ اسی سال فلمالیہ کی ’دل دے کے دیکھو‘، منروا مووی ٹون کی’دو غنڈے‘ اور لیکھ راج بھاکری کی ’پیار کی راہیں‘ اُن کی خاص فلمیں رہیں۔ 
 ۱۹۶۰ء میں ’بسنت، بے وقوف، چھلیا، دلی جنکشن، گیمبلر، جس دیش میں گنگا بہتی ہے، ماں باپ اورٹرنک کال‘ جیسی اہم فلموں میں پران موجود تھے۔ راج کپور کی فلم ’جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘ میں پران نے ایک خونخوار ڈاکو کا کردار بڑی خوبصورتی سے ادا کیا تھا مگر ایک سین میں جب اُن کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، تو وہاں فلم بینوں کو پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا بھی خونخوار کیوں نہ ہو مگر اس کے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں انسانیت ضرور زندہ رہتی ہے۔ 
 ۱۹۶۱ء میں ’جب پیار کسی سے ہوتا ہے‘ میں ناصر حسین کی ہدایت میں اور ۱۹۶۲ء میں ’دل تیرا دیوانہ، ہاف ٹکٹ، جھولا اورمن موجی‘ جیسی فلموں میں پران نے بہترین کردار ادا کیے۔ ’ہاف ٹکٹ‘ اور ’من موجی‘ فلموں میں کشور کمار اُن کے ساتھ تھے۔ ۱۹۶۳ء میں منموہن دیسائی کی ہدایت میں ’بلف ماسٹر‘، راول فلمز کی ’دل ہی تو ہے‘، شکتی سامنت کی ’ایک راز‘، ایچ ایس رویل کی ’میرے محبوب‘، ناصر حسین کی ’پھر وہی دل لایا ہوں ‘ اور فلمساز وکرم پروڈکشن کی ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ جیسی کامیاب فلموں میں پران کے یادگار کردار تھے۔ خاص طور پر فلم ’میرے محبوب‘ کے عیاش اور بگڑے ہوئے نواب منے میاں کو تو لوگ آج تک بھولے نہیں ہیں ۔ اسی طرح ۱۹۶۴ء میں فلم ’کشمیر کی کلی‘ کے ٹھیکیدار کا وہ مکالمہ ’شتالے شتالے شمپا، ہمارا بھی شمئے آئے گا‘ لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ 
 پران کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر فلم میں اپنی ایک الگ قسم کی ڈائیلاگ ڈیلیوری پیش کرتے تھے اور ایک الگ قسم کا ایکشن جیسے سگریٹ پینے کا انداز، جیب سے رومال نکالنا اور رکھنا، اُنگلی نچا کے بولنا، ایک آنکھ کو مچکاکے بولنا اور لنگڑاکے چلنا، جیسے مختلف قسم کے ایکشن سے کردار سازی کیا کرتے تھے۔ ۱۹۶۵ء میں ایک بار پھر فلم ’دو دل، خاندان، گمنام، میرے صنم اور شہید‘ جیسی فلموں سے پران نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں سے فلم بینوں کا دل جیت لیا تھا۔ حالانکہ ہر فلم میں اُن کا کردار منفی ہوتا تھا مگر ایک دوسرے سے اتنا مختلف ہوتا کہ ہر کردار الگ ہی اپنی چھاپ چھوڑتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ فلموں کی پبلسٹی میں پران کا نام دیکھ کر ہی فلم دیکھنے جاتے تھے۔ 
 ۱۹۶۶ء میں ان کے منفی کردار والی دلیپ کمار، وحیدہ رحمن کی فلم ’دل دیا درد لیا‘ آئی۔ کاردار صاحب کی اس فلم میں انہوں نے ایک الگ قسم کی اداکاری کی تھی۔ شروع میں وہ راجکمار کو طرح طرح سے ذلیل کرتا ہے اور جب راجکمار اپنے اصلی کردار میں سامنے آتا ہے تو پران در در بھٹکتے ہوئے بھی اپنی اس نفرت کو کم نہیں کر پاتا اور راجکمار کو ایک ملازم کی طرح ہی کمتر سمجھتا ہے۔ اسی سال منوج کمار اور آشا پاریکھ کی ہٹ فلم ’دو بدن‘ میں بھی پران نے کامیاب ویلن کا کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ فلم ’ملن، پتھر کے صنم‘ اور دلیپ کمار کے ساتھ ’رام اور شیام‘ میں اپنی بہترین اداکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ اُسی برس فلمساز و ہدایتکار منوج کمار نے فلم ’اُپکار‘ میں پہلی بار پران کو بالکل الگ طرح کے کریکٹر ایکٹر کے طور پر ملنگ بابا کے کردار میں پیش کیا۔ منفی کرداروں میں پران کا وہ عروج کا زمانہ تھا مگر ملنگ بابا کے کردار میں پران نے کچھ اِس طرح سے پران ڈالے کہ وہ فلم آج بھی صرف ملنگ بابا کے کردار کی وجہ سے ہی یاد کی جاتی ہے۔ 
فلم ’اُپکار‘ سے پران کا ایک نیا فلمی سفر شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد انہوںنے کئی فلموں میں کریکٹر ایکٹر کے بطور ہی کردار نبھائے اور اپنے فن کی بلندیوں سے فلم بینوں کی توجہ حاصل کرتے رہے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہی کہا جائے گا کہ فلم ’اُپکار‘ سے پران کا ویلن رخصت ہو رہا تھا اور اسی فلم میں پریم چوپڑہ نام کا ویلن اپنی زندگی کا ایک اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں پران کی کئی فلمیں نمائش کیلئے پیش ہوئیں، اُن میں ’سادھو اور شیطان، کہیں دن کہیں رات، برہمچاری اور آدمی‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۶۹ء میں ’سچائی، ننہا فرشتہ، بھائی بہن، انجانااور آنسو بن گئے پھول‘ جیسی فلموں سے پران نے اپنی مقبولیت اور شہرت کو برقرار رکھا۔ ۱۹۷۰ء میں ’یادگار، سماج کو بدل ڈالو، پورب اور پچھم، ہمجولی، گنوار، بھائی بھائی، کب کیوں اور کہاں، ہیر رانجھا، تم حسیں میں جواں اور جانی میرا نام‘ جیسی کامیاب فلموں میں پران کی فنکارانہ صلاحیتوں سے چار چاند لگے۔ آج بھی ہیر رانجھا کے کردار لنگڑے چاچا کو کون بھول پایا ہے جو ہیر کو صرف اسلئے زہر کھلا دیتا ہے تاکہ وہ زندہ حالت میں رانجھا کو حاصل نہ ہو سکے۔ ۱۹۷۱ء سے ۱۹۷۳ء کے درمیان پران کی کئی فلموں نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ ان میں ۱۹۷۱ء میں’نیا زمانہ، جوالا، گڈی (مہمان اداکار)، گنگا تیرا پانی امرت اور ادھیکار‘ قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۷۲ء میں ’یہ گلستاں ہمارا، ایک بیچارہ، بنیاد، آن بان، روپ تیرا مستانہ، وکٹوریہ نمبر ۲۰۳؍ اورجنگل میں منگل‘ قابل ذکر ہیں۔ فلم ’وکٹوریہ نمبر ۲۰۳‘ میں اشوک کمار کے ساتھ پران نے بہترین کامیڈی پیش کی اور فلم ’جنگل میں منگل‘ میں پہلی بار پران نے ڈبل رول ادا کیا تھا۔ ۱۹۷۳ء میں مشہور و مقبول ہدایتکار پرکاش مہرہ نے فلم’زنجیر‘ میں امیتابھ بچن کے مقابل پران کو ایک نیا گیٹ اَپ دے کر شیرخان کے کردار میں پیش کیا جسے فلم شائقین نے کافی پسند کیا۔ کہا جاتا ہے کہ امیتابھ بچن کو یہ فلم پران کی سفارش پر ہی ملی تھی۔ فلم ’رکشہ والا، پانچ دشمن، انصاف، غدار، ایک مٹھی آسمان، ایک کنوارہ ایک کنواری، دھرما، گوپی، جھیل کے اُس پار، جگنو، جوشیلا‘ اور راج کپور کی’بابی‘ فلمیں بھی اسی سال ریلیز ہوئیں، جن میں پران نے اپنے مختلف کرداروں سے فلم بینوں کے دلوں پر اپنی چھاپ چھوڑی۔
پران صاحب فلمی دنیا کے ایک اکیلے اداکار تھے جنہوں نے ایک ہی خاندان کی تین نسلوں، پرتھوی راج کپور، راج کپور اور رشی کپور کے ساتھ کام کیا ہے۔ ۱۹۷۲ء تا ۱۹۹۹ء انہوں نے تقریباً ۱۵۸؍ فلموںمیںکام کئے۔ اُن کی شہرت اور مقبولیت اس درمیان یکساں طور پر برقرار رہی۔ پران چاہتے تھے کہ وہ مرتے دم تک فلموں میں کام کرتے رہیں مگر بڑھتی عمر کے ساتھ اب اُن کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔ ۲۰۰۲ء میں فلم ’تم جیو ہزاروں سال‘، ۲۰۰۳ء میں فلم ’ایک ہندوستانی‘ اور ۲۰۰۷ء میں پران صاحب نے فلم ’دوشی‘ میں کام کیا۔
آزادی کے بعد فلم ’ضدی‘ سے پران کو ویلن کے طور پر جو کامیابی ملی تھی، اس کے بعد ۱۹۴۹ء میں ’بڑی بہن‘ کے بعد اُن کو لگاتار ویلن کے رول ملنے لگے۔ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء تک کے زمانے کے تمام بڑے ہیرو جیسے دلیپ کمار، دیوآنند اور راج کپور کے ساتھ پران کو فلموںمیں منفی کردار ملتے رہے۔ انہوں نے کئی بڑے ہدایتکاروں کے ساتھ کام کیا۔ ایم وی رامن، نانا بھائی بھٹ، کالی داس، دیوآنند، آئی ایس جوہر اور بمل رائے جیسے ہدایت کار پران کو بار بار اپنی فلموںمیں لے رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ۶۰ء کی دہائی میں  پران اپنے زمانے کے دوسرے بڑے ہدایت کاروں کی پسند رہے۔ اے بھیم سنگھ، شکتی سامنت، بپی سونی، کے امرناتھ، ناصر حسین اور دوسرے ہدایتکار اُن کو اپنی فلموں میں لے رہے تھے۔۷۰ء کی دہائی میں کئی نئے فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے پران کو اپنی فلموں کیلئے سائن کیا۔  یہی وہ زمانہ تھا جب پران کئی بڑے اداکاروں سے بھی زیادہ معاوضہ لے رہے تھے۔ یہ سلسلہ ۱۹۶۸ء سے ۱۹۸۹ء تک قائم رہا۔
پران صاحب ایک نہایت شریف النفس قسم کے انسان تھے۔ اُن کی زندگی میں کبھی کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔ وہ انتہائی رحمدل اور مخیر انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایماندار آدمی تھے۔ وہ جتنے اعلیٰ درجے کے اداکار تھے، اُس سے بھی کہیں زیادہ اعلیٰ درجے کے انسان تھے۔ یہاں اُن کی ایمانداری کا ایک واقعہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ۱۹۷۲ء میں کمال امروہی کی فلم ’پاکیزہ‘ بے حد کامیاب ہوئی اور اس کے موسیقی ریز نغموں نے چلتے ہوئے لوگوں کے قدموں کو روک کر اپنے آپ سننے پر مجبور کر دیا تھا مگر اس فلم کی موسیقی کیلئے موسیقار غلام محمد کو فلم فیئر ایوارڈ نہیں دیا گیا تھا بلکہ اس سال کیلئے فلم ’بے ایمان‘ کو بہترین موسیقی کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔ پران صاحب کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔ اُسی فلم کیلئے پران صاحب کو بھی بہترین سپورٹنگ ایکٹر کا ایوارڈ دیا گیا، مگر پران صاحب نے احتجاجاً ’بے ایمان‘ فلم کیلئے فلم فیئر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ ایسے تھے پران صاحب۔
 خود راقم کو پران صاحب سے کئی بار ٹیلی فون پر گفتگو کا موقع ملا، مگر ان دنوں ان کی طبیعت کافی ناساز رہتی تھی۔ جب میں نے اپنی پہلی کتاب ’وہ بھی ایک زمانہ تھا‘ پران صاحب کو بذریعہ ڈاک بھجوائی تو رسید کے طور پر ان کا فون آیا، وہ کتاب کی اشاعت سے کافی خوش تھے اور آہستہ آہستہ مطالعہ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔پران صاحب کو ہندی نہیں آتی تھی بلکہ وہ اپنے مکالمے اردو میں لکھواکر لیا کرتے تھے۔ اردو شاعری کے پران صاحب بہت شیدائی تھے اور لوگوں کو نجی ملاقاتوں میں اردو کے اشعار سنایا کرتے تھے۔ اُن کا تلفظ بہت عمدہ تھا جو اُن کے مکالموں کی ادائیگی میں بہت مددگار ثابت ہوتا تھا۔ دلیپ کمار سے ان کا بہت خاص تعلق تھا۔ دلیپ کمار کی شادی کے وقت پران صاحب  فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں سری نگر میں تھے، وہاں سے بذریعہ جہاز بمبئی پہنچے اور عین نکاح کے وقت شادی میں شریک ہوئے اوردلیپ کمار کو گلے سے لگا لیا۔  وہ دلیپ کمار سے تین سال بڑے تھے۔
 پران صاحب نے تقریباً ساٹھ برس تک ہندوستانی سنیما پر اپنا ایک خاص مقام بنائے رکھا۔ انہوں نے منفی کردار اتنی خوبصورتی سے ادا کئے کہ لوگ اُن کرداروں سے نفرت کرتے تھے مگر اُن کے ادا کرنے والے پران سے محبت کرتے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں نے اپنے بچوں کا نام پران رکھنا چھوڑ دیا تھا مگر جب کوئی فلم ریلیز ہوتی تھی تو ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ اس فلم میں غدار کون ہے؟ یا’’ اور پران‘‘ کا نام پڑھ کر فلم دیکھنے ضرور جاتے تھے۔ان کی سوانح مشہور صحافی بنی  روبن نے تحریر کی ہے جس کا عنوان ہے ’اینڈ پران‘۔ چونکہ فلم کی پبلسٹی میں تمام اداکاروں کے نام کے آخر میں پران صاحب کا نام ’اینڈ پران‘ لکھا ہوتا تھا۔ اُن کے ایک مداح نے سمجھا کہ’اینڈ‘ پران صاحب کا سرنیم ہے، لہٰذا اُن کو اینڈ پران کے نام سے مخاطب کرکے ایک تعریفی خط لکھا۔ پران صاحب کو اپنے فین کی یہ ادا بڑی پسند آئی اور انہوں نے خاص طور پر اپنی سوانح کا عنوان ’اینڈ پران‘ ہی تجویز کیا تھا۔
 پران صاحب کو اپنی تقریباً ۶۵؍ سالہ فلمی زندگی میں کئی بار اعزازات سے نوازا گیا۔ اُنہیں تین بار بہترین معاون اداکار کے طور پر فلم ’اُپکار، آنسو بن گئے پھول اوربے ایمان‘ کیلئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ تین بار اُن کو بنگال فلم جرنلسٹ اسوسی ایشن کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۲۰۰۱ء میں پران صاحب کو حکومت کی طرف سے اُن کی کل فلمی خدمات کیلئے پدم بھوشن سے نوازا گیا۔ اپریل ۲۰۱۳ء میں حکومت  کا سب سے بڑا فلمی اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔ اُن کی علالت کی وجہ سے یہ ایوارڈ خود انفارمیشن منسٹر نے اُن کی رہائش گاہ پر جاکر پیش کیا تھا۔ ۱۹۹۷ء میں فلم فیئر نے انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔ ۲۰۱۰ء میں مہاراشٹر حکومت نے دادا صاحب پھالکے اکیڈمی ایوارڈ دیا۔ اس کے علاوہ مختلف اداروں کی طرف سے  انہیں تقریباً ۲۰؍ مختلف قسم کے اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ ۹۳؍ برس کی عمر میں ۱۲؍جولائی ۲۰۱۳ء کی شام انہوں نے ممبئی کےایک اسپتال میں زندگی کی آخری سانس لی اور خالق حقیقی سے جا ملے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK