ہندوستانی سنیما کی گہری فضا میں کچھ نام چراغوں کی مانند ہوتے ہیں،جو روشنی دیتے ہوئے خود بھی زیادہ روشن ہوتے جاتے ہیں۔
بومن ایرانی ہر کردار میں ڈھل جاتے ہیں۔ تصویر:آئی این این
ہندوستانی سنیما کی گہری فضا میں کچھ نام چراغوں کی مانند ہوتے ہیں،جو روشنی دیتے ہوئے خود بھی زیادہ روشن ہوتے جاتے ہیں۔ بومن ایرانی ایسا ہی ایک نام ہے۔ ایک ایسا فنکار جس نے ثابت کر دیا کہ کامیابی عمر کی محتاج نہیں، لگن کی ہوتی ہے۔ جنہوں نے ۵۰؍برس کے قریب پہنچ کر اداکاری کا سفر شروع کیا اور چند ہی برس میںفلمی دنیا کا وہ چہرہ بن گئے جسے دیکھ کر ناظرین یکایک مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اس کردار میں جان پڑ جائے گی۔بومن ایرانی کا فن محض اداکاری نہیں، تہذیب بھی ہے، تربیت بھی، اور وہ مٹھاس بھی جس میں پارسی ثقافت کی خوشبو گھلی ہوتی ہے۔ ان کی مسکراہٹ میں وقار ہے، اور ان کی اداکاری میں ایک ڈسپلن جو برسوں کی ریاضت کا حاصل ہے۔
بومن ایرانی۲؍ دسمبر۱۹۵۹ءکوممبئی میں ایک پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش سے عین پہلے ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا،یوں بچپن سے ہی زندگی نے ذمہ داری ان کے کندھوں پر رکھ دی۔ وہ بولنے میں کمزور تھے، ہکلانے کی عادت تھی، مگر والدہ نے انہیں کبھی رکنے نہ دیا۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا لوگوں کے سامنے بولنے کا حوصلہ پیدا کرے، دنیا سے نظریں ملا سکے۔
بومن ایرانی نے ابتدا میں تاج محل پیلس ہوٹل میں ویٹر اور روم سروس اسٹاف کے طور پر کام کیا۔ کئی برس انہوں نے اپنی ماں کی چلتی ہوئی چھوٹی سی بیکری میں بھی کام کیا، کیک اور بسکٹ بیچے۔ پھر فوٹوگرافی کا شوق جاگا، توکیمرہ اٹھایا اور اچھی خاصی پہچان بنائی۔ وہ اسکول کی فیس کیلئے پوسٹر اور شادیوں کی تصویریں تک کھینچتے رہے۔ ان کا آرٹسٹ بننے کا خواب کبھی بجھا نہیں، لیکن یہ خواب فلمی پردے تک پہنچنے میں دیر ضرور لگا۔
بومن ایرانی کی اصل تربیت تھیٹر سے ہوئی۔ انہوں نے کئی اہم اسٹیج پرفارمنسز کیں، جن میں’آئی ایم ناٹ باجی رائو‘اور ’مہات ما ورسیز گاندھی‘شامل ہیں۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں انہوں نے کردار میں ڈوبنے کا فن سیکھا، لہجے اور آواز کے اتار چڑھاؤ پر گرفت مضبوط کی اور اپنی شناخت سنوارنی شروع کی۔تھیٹر ہی نے ان کے لیے فلمی دنیا کا دروازہ کھولا۔۲۰۰۱ءمیں انہیں پہلی بڑی فلم’ایوری بڈی سیز آئی ام فائن‘ملی۔ مگر اصل پہچان ۲۰۰۳ءکی فلم’منا بھائی ایم بی بی ایس‘سے بنی، جہاں انہوں نے ڈاکٹر استھانا کا کردار کچھ اس مہارت سے نبھایا کہ لوگ آج بھی ان کی مصنوعی ہنسی اور سخت گیر لہجہ بھول نہیں پاتے۔
اس کے بعد انہوں نے ۲۰۰۶ء میں لگے رہے منا بھائی میں بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’ڈان‘،’ڈان ۲‘،’۳؍ایڈیٹس‘، ’پی کے‘،’ہائوس فل سیریز‘،’کھوسلا کا گھوسلا‘ اور ’جولی ایل ایل بی۲‘ جیسی مشہور فلموں میں کام کرکے شناخت قائم کی۔
بومن ایرانی صرف ایک اداکار نہیں، ایک شائستہ شخصیت بھی ہیں۔پارسی کمیونٹی کی تہذیب اور خاندان کی روایات ان کے گفتگو کے انداز، لباس، اور طرزِ عمل میں جھلکتی ہیں۔انہوں نے فلمی دنیا میں داخل ہو کر نہ کبھی شورمچایا، نہ کوئی تنازع کھڑا کیا۔خاموشی سے کام کیا، بہترین کام کیا اور ثابت کر دیا کہ کامیابی کے لیے صرف فن کار ہونا کافی نہیں، انسان ہونا بھی ضروری ہے۔وہ اپنی بیوی زینوبیا اور بچوں سے بے حد جڑے ہوئے ہیں۔ سنیما کی بھاگ دوڑ میں بھی گھر ان کے لیے سکون کا مرکز رہا۔