ہدایتکار، فلمساز اور قلمکار فرحان پی زماں کا کہنا ہے کہ’ فرسٹ کاپی‘ میں، میں نے ’پائریسی‘ کا موضوع اُٹھایا ہے جس سے فلم انڈسٹری جوجھ رہی ہے، اس میں منورفاروقی کا اہم کردار ہے۔
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 11:24 AM IST | Mumbai
ہدایتکار، فلمساز اور قلمکار فرحان پی زماں کا کہنا ہے کہ’ فرسٹ کاپی‘ میں، میں نے ’پائریسی‘ کا موضوع اُٹھایا ہے جس سے فلم انڈسٹری جوجھ رہی ہے، اس میں منورفاروقی کا اہم کردار ہے۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والے ہدایتکار، قلمکار اور فلمساز فرحان پی زماں کا ویب شو ’فرسٹ کاپی‘ ریلیز ہوا ہے جس کے ذریعہ منور فاروقی نے اداکاری کی دنیا میں قدم رکھا ہے۔ فرحان نے پائریسی کے موضوع پر بننے والے اس ویب شوکی ہدایتکاری کی ہے اور اس کی کہانی بھی لکھی ہے۔ انہوں نے ٹیلی ویژن کیلئے کئی ہٹ ڈرامے اور ڈاکومینٹری فلمیں بنائی ہیں۔ ان کے ہی شو کے ذریعہ معروف اداکارہ شبانہ اعظمی نے ٹی وی پر’ اماں ‘ نامی شو سے آغاز کیا تھا۔ انہیں ٹی وی دنیا کا سب سےکم عمر فلمساز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ سالٹ میڈیا کے شریک بانی ہیں۔ اس پروڈکشن ہاؤس کے بینر تلے انہوں نے دستاویزی فلمیں بنائی ہیں۔ فرحان کے پاس انڈسٹری میں اسکرپٹنگ اور فلمسازی کا ۱۳؍ سالہ تجربہ ہے۔ نمائندہ انقلاب نےفلمساز، ہدایتکار اورقلمکارفرحان پی زماں سے گفتگو کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:
پائریسی کے موضوع پر ویب شو بنانے کا خیال کس طرح ذہن میں آیا ؟
ج:۹۰ء کے دور میں فلم اور ٹی وی انڈسٹری عروج پر تھی۔ اس وقت کئی فلمیں ریلیز ہو رہی تھیں۔ اسی دور میں وی سی آر بھی عام ہوا کرتا تھا۔ بعد میں وی سی آرکی جگہ وی سی ڈی نے لے لی۔ میں نے سب سے پہلے وی سی ڈی پر ’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ فلم دیکھی تھی اوراس سے قبل وی سی آر پر فلم ٹائٹینک دیکھی تھی۔ اس دور میں کمپیوٹر بھی اپنی ابتدائی شکل میں تھے جس پر سی ڈی کو کاپی کرنے کا طریقہ رائج تھا۔ میں نے بھی کئی بار ایسا کیا تھا لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ ہوتا کہاں تھا۔ اسی سوچ سے میں نے اس فلم کو لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ۹۰ء کی دہائی کے بہت سے اسکیم پر فلمیں اور ویب شوز بن چکے تھے لیکن جو انڈسٹری یہ سب بنا رہی تھی اس کے ساتھ ہی پائریسی جیسا بڑا اسکیم ہوا تھا، اس موضوع پر کسی نے کچھ کام نہیں کیا تھا۔
منورفاروقی کو مرکزی کردار میں کاسٹ کرنے کی وجہ کیا تھی ؟
ج:فرسٹ کاپی کے مرکزی کردار کیلئے منور فاروقی بالکل فٹ تھے کیونکہ ہمیں ایسے چہرے کی تلاش تھی جس پر شرارت ہواور فریب دینے کا ہنر ہو۔ میں منور کو جانتا نہیں تھا، میں نے ان کے اسٹینڈاَپ کامیڈی کے شوز دیکھے اور اس کے بعد ان سے ملاقات کی۔ میں ریئلیٹی شوز نہیں دیکھتا تھا اسلئے مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ لاک اَپ شو کے فاتح تھے۔ اس وقت میں نے سوچا کہ یہ تو اور اچھی بات ہے کہ وہ مشہورشخص ہیں۔ جب میں نے انہیں کہانی سنائی تو انہوں نے ہامی بھرلی لیکن منور نے ایک دقت یہ بیان کی کہ وہ بگ باس کے گھر میں داخل ہونے والے تھےلیکن انہوں نے اصرار کیا کہ ویب شو میں وہی کام کریں گے۔ بہرحال وہ بگ باس میں کامیاب رہے اور اگلے ہی دن ہم سے ملاقات کی اور سبھی چیزوں کو حتمی شکل دی گئی۔ حالانکہ پروڈکشن ہاؤس ان کیلئے تھوڑا تذبدب کا شکار تھا کیونکہ وہ اسٹینڈ اپ کامیڈین ہیں اور انہیں اداکاری کی زیادہ معلومات نہیں بہرحال ورک شاپ کے بعد انہوں نے اداکاری بھی کی۔
اس ویب شو کو لکھنے اور بنانے کیلئے آپ کو کیاکیا کرنا پڑا ؟
ج:میری پیدائش اور پرورش ممبئی میں ہی ہوئی ہے۔ جب بھی ہم ممبئی کی بات کرتے ہیں تو میرے سامنے ۹۰ء کی دہائی کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہیں۔ میں لووَر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں اور ہم نے دوسروں کے گھروں پر وی سی آر پر فلم دیکھنے کا دور بھی دیکھا ہے۔ آج جس طرح فلمیں اکیلے دیکھنے کا رواج ہے اس وقت ایسا نہیں ہوتا تھا۔ پوری فیملی وی سی آر پر ایک ساتھ بیٹھ کر فلم دیکھتی تھی۔ عوام کے بارے میں لکھنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ یہ شو عوام، پولیس، پائریٹ اور پروڈیوسر کی کہانی کے ارد گرد گھومتا ہے۔ میرے والد خالق الزماں پروڈیوسر تھے تو یہ حصہ لکھنے میں آسانی ہوئی۔ پائریٹ اور عوام کا حصہ بھی لکھنا آسان ہوگیا۔ پولیس کے تعلق سے ریسرچ کرنی پڑی۔ ۹۰ء کے دور کو دکھانے کیلئے میں نے پرانی تصویروں کا سہارا لیا اور اس پر بھی ریسرچ کی۔
ویب شوکی طوالت کے بارے میں آپ کچھ بتائیں گے؟
ج:ہمارے لئے ایک اچھی بات یہ رہی کہ ہم نے پہلے شو لکھ لیا تھااور اس کے بعد اسے بناناشروع کیا۔ امیزون نے پورا سپورٹ کیا۔ میں نے ۲؍سیزن کی مناسبت سے ہی ۲۰؍ ایپی سوڈ کا شو لکھا تھا اور اس کا دورانیہ بھی ۳۰؍ منٹ کا رکھا ہے۔ ہم نے اس کے ایپی سوڈ میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ یہ شو کریٹکس اور امیر آڈینس کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ لوور مڈل کلاس کے لئے ہے، جہاں ایک شخص صبح کی بھاگ دوڑ کے بعد آئے تو اس کی تفریح ہو اور وہ کہیں پرخود کو جیتاہوا محسوس کرے۔ یہ ان افراد کیلئے ہے جو ٹرین میں سفر کرتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ ایک دن ان کے پاس گاڑی ہوگی اور وہ اس میں سفر کریں گے۔ ہم نے اس شو کو بہت سہل بنایاہے جس میں سازش نہیں ہے بلکہ تفریح ہے۔
آپ اپنے اگلے شو’ آنگڑیا‘ کے بارے میں بھی کچھ بتائیں ؟
ج:بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آنگڑیا کسے کہتے ہیں۔ دراصل یہ ایک پرانی کوریئر سروس ہے۔ اس کے ذریعہ پیسوں کا لین دین بھی ہوتا ہے جسے عام زبان میں حوالہ کہتے ہیں۔ اسی کو موضو ع بناتے ہوئے ہم نے اس کی کہانی لکھی اور اس پر ویب شو بنایا۔ منورفاروقی کا یہ دوسرا فکشن شو ہوگا، ان کے ساتھ مہیش مانجریکر بھی اہم کردار میں ہیں۔ اس سے زیادہ میں آپ کو اس کے بارے میں نہیں بتا سکتا۔ یہ فرسٹ کاپی سے بالکل الگ ہے، اس میں تھرلر اور ایکشن ہے۔ ہم نے اس میں بتایا ہے کہ ڈجیٹل دور میں کس طرح سے حوالے کا پیسہ ادھر سےاُدھر کیا جارہا ہےجسے دیکھ کر شائقین چونک جائیں گے۔
آپ اس انڈسٹری سے کس طرح وابستہ ہوئے؟
ج:میرے والد خالق الزماں ایک پروڈیوسر تھے۔ انہوں نے فلم بنانے کیلئے قرض بھی لیا تھا لیکن جب ان کا انتقال ہوا تو گھر کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آگئی۔ اس وقت ایسا تھا کہ میرے ماموں نے جتنے پیسے دیئے اس سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور آگے کی تعلیم کیلئے خود کماؤ اور پڑھو کا طریقہ آزمایا۔ اس کیلئے میں نے اسپاٹ بوائے کی حیثیت سے انڈسٹری میں کام کرنا شروع کیا اور سیکھتے سیکھتے میں کیمرے کے پیچھے ہونے والے سبھی کام سیکھ گیا۔ حالانکہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اس انڈسٹری میں کام نہیں کروں گا کیوں کہ میرے والد مقروض ہو کر انتقال کرگئے تھے۔ میں نے ڈیل کمپنی میں شمولیت اختیار کی، لیکن مجھے لکھنے کا بہت شوق تھا اور میں نے مہیش بھٹ کیلئے بہت کا م کیاہے۔ اس کے بعد میں نے اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام شروع کردیا۔ میں نے تقریباً ۷۲؍ شوز کیلئے کیمرے کے پیچھے اہم ذمہ داریاں نبھائیں۔ فلموں میں کام کرنے کی خواہش تھی لیکن مہیش بھٹ کے ہدایتکار نے جو شرط رکھی وہ ناقابل قبول تھی۔ اس کے بعد میں نے ٹی وی سے آغاز کیا۔ ٹی وی کیلئے میں نے عدالت کیلئے کچھ شوز لکھے۔ اس کے بعد میں آزادانہ طورپر کام کرنا چاہتا تھا، اسلئے زی ٹی وی کے شو ’اماں ‘ کو پرڈویوس کیا۔ اس شو کے ذریعہ شبانہ اعظمی نے ٹی وی پر قدم رکھا تھا۔ اس شو کو میں نے پہلی اور آخری بار پروڈیوس کیا تھا۔ اس کے بعد میں الگ آڈینس چاہتا تھا، اسلئے ویب شو کی جانب متوجہ ہوا۔ ہمارا ایک چھوٹا سا پروڈکشن ہاؤس ہےاور اس کی ٹیم ۷؍افراد پر مشتمل ہے۔ یہ ٹیم کم بجٹ میں بہتر کرنے کی پوری کوشش کرتی رہتی ہے۔