Inquilab Logo

فیروز خان اچھے اداکار اور بہترین ہدایت کار تھے

Updated: September 27, 2020, 4:14 AM IST | Agency | Mumbai

ہماری فلم انڈسٹری کی خوش قسمتی رہی ہے کہ یہاں متعدد ایسے فن کارپیدا ہوئے جنہوں نے پردۂ سیمیں پر اپنی فنی صلاحیتوں اور ہمہ جہت اداکاری کی بدولت فلم انڈسٹری میں وہ مقام حاصل کیا جو انہیں مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔

Feroz Khan - PIC : INN
فیروز خان ۔ تصویر : آئی این این

فیروز خان بھی ایسے ہی ایک فن کار تھے جنہوں نے اپنی ہمہ جہت اداکاری کی بدولت لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔ فلم انڈسٹری میں ان کی شناخت ایک’ اسٹائل آئیکون‘ کے طور پر تھی۔ان کی پیدائش۲۵؍ ستمبر۱۹۳۹ءکو بنگلور میں ہوئی تھی۔ والد پٹھان  تھےجبکہ والدہ کا تعلق ایرانی نسل سے تھا۔ انہوں نےتاحیات انہوں نے اپنی آن بان اور شان قائم رکھی ۔گورے چٹے، قد آور افغانی نسل کے اس پٹھان نے اس کیلئے کبھی کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا، خواہ اس کیلئے انہیں کتنا بھی خسارہ برداشت کرنا پڑا ہو۔خوب صورت ملبوسات،قیمتی گاڑیوں اور عمدہ نسل کے گھوڑوں سے انہیں بے پناہ لگاؤ تھا جس کا دیدار ان کی ہر فلم میں کیا جاسکتا ہے۔خان کا اداکاری کا اپنا انداز تھا۔ جس طرح آج کل سلمان  اپنےا سٹائل کیلئے مشہور ہیں اسی طرح فیروز خان جانے جاتے تھے۔
 فیروز خان نے اپنے کریئر کی ابتداثانوی درجے کی فلموں سے کی۔ ۱۹۶۰ءمیں انہوں نے ’دیدی‘ نامی فلم میں بطور معاون اداکارکام کیا۔بعد ازاں کئی برسوں تک وہ بی اورسی گر یڈ فلموں میں کام کرتے رہے لیکن یہ فیروز خان کی منزل نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ اور لگن کو برقرار رکھا اوراپنی الگ شناخت کیلئے کوشاں رہے۔۱۹۶۵ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ’اونچے لوگ‘ ان کے کریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی ۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا۔پھر کامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔ بعد ازاں انہوں نے سپرہٹ فلم’ آرزو‘میں بطور معاون اداکاربہترین کام کرکے خوب شہرت کمائی اور اب انہیں اول درجے کی فلموں میں کام ملنے کا راستہ ہموار ہوگیا۔۱۹۶۹ء میں فیروز خان کو’آدمی اور انسان‘ میں بہترین اداکاری کیلئے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔حالانکہ اس وقت فیروز خان نے فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت تو قائم کرلی تھی لیکن انہیں فلموں میں لیڈ رول کیلئے بہت کم فلم ساز منتخب کرتے تھے۔اس کا فیروز خان کو کہیں نہ کہیں قلق ضرور تھا، اسلئے انہوں نے اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کیا جس سے ان کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوا۔ انہوں نے ایک نیا خواب دیکھنا شروع کیا یعنی ہدایت کاری اور فلم سازی کا اور جلد ہی اس کی تعبیر بھی سامنے آگئی۔ انہوں نے خود کو اداکاری تک ہی محدود نہ رکھ کر فلم سازی اور ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھ دیا اور کامیاب بھی رہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اداکار سے زیادہ ہدایت کار اور فلم ساز تھے تو غلط نہ ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کو ذہن میں رکھ کر اسکرپٹ لکھی جاتی تھی اور وہ اپنی فلموں میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے تھے۔۱۹۷۲ء میں انہوں نے ’اپرادھ‘نامی فلم بنائی‘ جو زیادہ کامیاب تو نہ ہوسکی لیکن۱۹۷۵ء میں جب انہوں نے فلم ’دھرماتما‘ بنائی تو وہ سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اور ان کی شہرت و مقبولیت کا سبب بنی۔ اس فلم میں فیروز خان نے بطور ہدایت کار اور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
 فیروز خاں ایسے فن کار تھےجو بیک وقت اداکار، ہدایت کار، فلم ساز، اسکرپٹ رائٹرا ور مدیرانہ صلاحیت کے حامل تھے۔ ایک اور فلم جو اُن کے نام کے ساتھ جڑگئی ہے اور جس کا نام آتے ہی فیروز خان کا چہرہ سامنے آجاتا ہے ، وہ ہے شہرہ آفاق فلم ’قربانی‘۔۱۹۸۰ءمیں ریلیز ہونے والی یہ فلم اس قدرہٹ ثابت ہوئی کہ اس فلم کی ہدایت کے بعد ان کا شمار صف اول کے ہدایتکاروں میں ہونے لگا۔ اس میں ایک نئی تکنیک سے متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ بالی ووڈ کی اولین فلم تھی جس میں ہالی ووڈ کی طرز پر گلاس کا استعمال کیا گیا۔اس فلم کو سپر ہٹ بنانے میں پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کی آواز کا بھی بڑا رول تھا جنہوں نے فلم میں’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے‘  گایا تھا۔
 فیروز خان کی شہرۂ آفاق فلم قربانی کے ساتھ ایک دلچسپ داستان جڑی ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ اس فلم کیلئے انہوں نے اس وقت کے سپر اسٹار ونود کھنہ، زینت امان اور امجد خان کو سائن کیا تھا۔  اس وقت یہ اسٹار کافی پیسہ لیتے تھے اور فلم کے زیادہ تر منظر بیرون ملک میں فلمانے کے سبب اس کا بجٹ اوور ہوگیا۔ حالات کے تقاضے کو مد نظر رکھ کر انہوں نے فلم کی قیمت بڑھا دی۔ نتیجتاً تقسیم کاروں کاروں کی بھنوئیں تن گئیں اور فلم تقسیم کرنے سے کترانے لگے۔حالات کے سبب انہوں نے  گھٹنے  نہیں ٹیکے بلکہ خود تقسیم کار بننے کا فیصلہ کیا۔ اپنے وقار اور آن بان کو قائم رکھتے ہوئے انہوں نے اس فلم کیلئے نئی دہلی کے تاج مان سنگھ ہوٹل میں آفس کرایہ پر لیا اور یہیں سے فلم ریلیز کی۔سنیما مالکان فلم کی بکنگ کیلئے تاج مان سنگھ ہوٹل آتے اور فلم بک کرتے۔اس فلم نے۸۵؍ سے۹۹؍ فیصد تک تجارت کی۔یو پی کے کئی سنیماگھروں یہ فلم دوہفتوں تک ہاؤس فلم چلی اور کئی سنیماگھروں میں ۱۰۰؍ دن تک چلی۔اس کے علاوہ ان کی اہم فلموں میں جانباز، دیاوان اور  یلغار کا نام لیا جا سکتا ہے۔ بہترین اداکاری اور ہدایتکاری کیلے انہیں کئی ایوارڈ بھی ملے۔
 پردۂ سیمیں اور ذاتی زندگی میں آن بان اور شان کے ساتھ چمکنے والا یہ ستارہ۲۷؍؍اپریل۲۰۰۹ءکو ڈوب گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK