• Sun, 21 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اوشا منگیشکر اگر گلوکارہ نہ ہوتیں تو مصورہ ہوتیں

Updated: December 21, 2025, 4:29 PM IST | Agency | Mumbai

معروف گلوکارہ اوشا منگیشکر کی پیدائش۱۵؍ دسمبر ۱۹۳۵ء کو مدھیہ پردیش میں معروف موسیقار و گلوکار دیناناتھ منگیشکر کے یہاں ہوئی۔

Usha Mangeshkar. Picture: INN
اوشا منگیشکر۔ تصویر: آئی این این
معروف گلوکارہ اوشا منگیشکر کی پیدائش۱۵؍ دسمبر ۱۹۳۵ء کو مدھیہ پردیش میں معروف موسیقار و گلوکار دیناناتھ منگیشکر کے یہاں ہوئی۔ اوشا ان کی چوتھی بیٹی ہیں جو لتا منگیشکر، آشا بھوسلے اور مینا کھڑیکر سے چھوٹی ہیں جبکہ بھائی ہردے ناتھ منگیشکر سے بڑی ہیں۔ بہت کم عمر ہی میں اوشا کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ جس وقت دیناناتھ منگیشکر کا انتقال ہوا، اُس وقت اوشا کی عمر محض ۶؍ برس تھی۔ والد کے اچانک انتقال کے بعد اوشا اور ان کے بہن بھائیوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لتا نے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا، پھر آہستہ آہستہ آشا بھوسلے، مینا اور اوشا بھی گلوکاری سے وابستہ ہوگئیں۔ موسیقی انہیں وراثت میں ملی۔
اوشا نے۱۹۵۴ء میں ریلیز ہوئی فلم ’صبح کا تارا‘ کے گیت’بڑی دھوم دھام سے میری بھابھی آئی‘ سے بالی ووڈ میں قدم رکھا۔ یہ ایک رومانوی ڈراما گیت تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے گلوکاری کے کریئر میں ہندی، مراٹھی، بنگالی، بھوجپوری، نیپالی، کنڑ اور آسامی سمیت کئی زبانوں میں گیت گائے۔ فلموں میں آنے سے پہلے، لتا منگیشکر سے ملتی جلتی شکل اور آواز کی وجہ سے اُن کا کریئر کچھ خاص نہیں چل سکا اور ایسا ہونا فطری  بھی تھا۔ اوشا کو معاون اداکاراؤں کیلئے اور کبھی کبھی  مرکزی اداکارہ کیلئے  گیت کانے کا موقع ملا لیکن یہ کم بجٹ  والی فلمیں تھیں۔ بڑے بینرز میں اُن کی شراکت ہمیشہ معاون اداکارہ کیلئے ایک یا دو دوگانوں تک محدود رہی۔ انہوں نے دیگر گلوکاراؤں کے ساتھ ، جن کی تعداد اکثر تین یا چار ہوتی تھی اجتماعی گیت بھی گائے۔اُن کا سب سے مشہور ہندی فلمی دوگانا فلم’آزاد‘ (۱۹۵۵ء) کا لتا کے ساتھ گایا ہوا گیت’اپلم چپلم چپلا ئی رے‘ ہے۔ اس کے بعد انہیں اسی نوعیت کے مزید گیتوں کی آفرز ملیں۔
اُن کا ایک اور مشہور دوگانا’او البیلے پنچھی‘ ہے، جو انہوں نے آشا کے ساتھ فلم’دیوداس‘ (۱۹۵۵ء) میں گایا۔’تم کو پیا دل دیا‘ لتا منگیشکر کے ساتھ اُن کا ایک اور دوگانا ہے جو فلم کا سب سے مقبول گیت تھا اور آج بھی اتنا ہی مقبول ہے۔ منا ڈے کے ساتھ فلم ’پیار کیے جا‘ (۱۹۶۶ء) کا گیت `’اومیری مینا‘ ایک مزاحیہ گیت تھا جسے انہوں نے تیسری مرکزی اداکارہ کیلئے گایا تھا۔ اس گیت میں اُن کی آواز میں نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے۔ ایسے جوشیلے گیتوں میں اُن کی اور لتا کی آواز میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اُن کی آواز میں تیکھا پن آ گیا تھا۔ ان کی آواز لتا کے مقابلے  تیز اور بلند آہنگ تھی۔ لتا اپنی نرمی برقرار رکھ سکتی تھیں، لیکن ایسے گیتوں میں  اوشا یہ نرمی  برقرار نہیں رکھ پاتی تھیں۔ بعد میں’جے سنتوشی ماں‘ اور کچھ دیگر فلموں میں یہی آواز اُن کے کام آئی۔
آشا کے ساتھ اُن کا ایک اور قابلِ ذکر دوگانا فلم’رفو چکر‘ (۱۹۷۵ء) کا’چھک چھک چھک چھک‘ تھا، جسے رشی کپور اور پینٹل پر خواتین کے لباس میں فلمایا گیا تھا۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اوشا کی آواز کس کردار کیلئے تھی۔ ایک بار پھر انہوں نے اپنی نئی آواز کا مظاہرہ کیا۔ فلم’جے سنتوشی ماں‘ نے ان کی قسمت ہی بدل دی۔۱۹۷۵ء میں ریلیز ہوئی اس فلم کے گیت ’میں تو آرتی اُتاروں‘ نے اوشا کو گھر گھر میں پہچان دلائی۔ اس کیلئے انہیں کئی اعزازات سے نوازا گیا اور اسی فلم کے کیلئے  انہیں فلم فیئر کی بہترین پلے بیک سنگر (خاتون) کیلئے نامزدگی بھی حاصل ہوئی۔
فلم’قانون اور مجرم‘ (۱۹۸۱ء) کا گیت ’شام رنگین ہوئی ہے‘ جسے سریش واڈکر پر فلمایا گیا ہے، ایک دلکش دوگانا ہے جو ایسے وقت میں منظر عام پر آیا جب موسیقی کی دنیا بحران کا شکار تھی۔ موسیقار سی ارجن، جنہوں نے’جے سنتوشی ماں‘ میں بھی موسیقی دی تھی، نے اُن کی نرم آواز کا استعمال کیا اور یہ شاندار گیت تخلیق کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر گیت کی ڈیمانڈ ہوتی تو وہ اپنی آواز میں شیرینی لا سکتی تھیں۔اوشا نے سولو گیت بھی گائے، اگرچہ ان کی تعداد کم تھی مگر وہ یادگار رہے۔ اُن کا پہلا ہندی فلمی گیت’صبح کا تارا‘  کا’بھابھی آئی بھابھی آئی‘ ایک بچے پر فلمایا گیا تھا۔
یہ اُن کیلئے ایک شاندار آغاز تھا مگر وہ اے گریڈ فلموں میں اپنی مضبوط چھاپ نہ چھوڑ سکیں۔ انہوں نے بی گریڈ فلموں کے گیت قبول کرنے شروع کئے اور وہیں اُن کا دائرہ محدود ہو گیا۔ کبھی کبھار ہی انہیں اے گریڈ فلموں میں معاون گلوکارہ کے طور پر گیت گانے کا موقع ملتا۔ ایک اور سولو گیت جس میں اُن کی آواز کی معصومیت جھلکتی ہے وہ فلم ’پنچایت‘ (۱۹۵۸ء) کا’چاچی اکڑ گئی‘ ہے جو ایک بچے پر فلمایا گیا تھا۔ اُنہوں نے فلم ’میں نشے میں ہوں‘ (۱۹۵۸ء)  میں مرزا غالب کی ایک غزل  ’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘  کو نہایت خوبصورتی سے گایا۔
ان  کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ گلوکاری ان کا پہلا شوق نہیں تھا وہ دراصل مصور بننا چاہتی تھیں۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ اگر وہ گلوکارہ نہ ہوتیں تو پینٹنگ کرتیں۔ وہ ممبئی میں کئی بار اپنی پینٹنگز کی نمائش بھی لگاچکی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK