۱۹۵۵ء میں ریلیز ہونےوالی فلم ’منیم جی‘ میں پہلی بار انہوں نے ماں کا کردار ادا کیا تھا، اُس وقت ان کی عمر کافی کم تھی، اسلئے بالوں میں سفیدی لگاکر انہیں ماں کے کردار کےقابل بنایا گیا تھا۔
نروپا رائے۔ تصویر:آئی این این
ایک عام متوسط گجراتی خاندان میں۴؍جنوری ۱۹۳۱ء کو کانتا کا جنم ہوا۔ ان کے والدبھگا بھائی انڈین ریلوے میں فٹر تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد صرف ۱۴؍ سال کی عمر میں ہی عام گجراتی خاندان کی طرح کانتا کے خاندان نے بھی اُس کی شادی کشور چندر بلساڑا کے ساتھ کرا دی جو بعد میں کمل رائے کے نام سے جانے گئے۔ کمل رائے بمبئی کے راشنگ شعبہ میں ملازم تھے۔ شادی کے وقت کانتا کا نام کوکیلا بلساڑا طے ہوا جو بعد میں فلموں میں نروپا رائے کے نام سے مشہور ہوئیں۔
کمل رائے شادی کے کچھ ہی دنوں بعد جب گجراتی فلموں میں کام کرنے کی خواہش لے کر فلمساز و ہدایت کار وی ایم ویاس سے ملے تو انہوں نے کمل رائے کو اپنی فلم میں ہیرو بنانے سے انکار کر دیا، مگر ساتھ ہی نروپا رائے کو اپنی فلم میں ہیروئین کے کردار کی پیشکش کی۔نروپا رائے نےیہ آفر قبول کر لیا اور اس طرح صرف ۱۵۰؍ روپے ماہانہ معاوضہ پر نروپا گجراتی فلم ’رنک دیوی‘ کی ہیروئین بن گئیں۔ ان کی قسمت اچھی تھی کہ پہلی ہی فلم ہٹ ثابت ہوئی اور وہ اسٹار بن گئیں۔
نروپا رائے کی پہلی ہندی فلم تھی ’امر راج‘، جو فلم ساز ہومی واڈیا نے ۱۹۴۶ء میں بنائی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے کئی دھارمک فلموں میں کام کیا اور جب ۱۹۵۰ء میں جینت دیسائی کی فلم ’ہرہر مہادیو‘ نمائش کیلئے پیش ہوئی تو نروپا رائے کی پہچان ایک دیوی کے روپ میں قائم ہو گئی۔ اس فلم میں راج کپور کے چچا ترلوک کپور اُن کے ہیرو تھے۔
بمل رائے کی مشہور زمانہ فلم ’دو بیگھہ زمین‘ میں نروپا رائے اداکار بلراج ساہنی کے مقابل ہیروئین تھیں۔ یہ فلم ۱۹۵۳ء میں نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ اس فلم کی عالمی شہرت سے نروپا رائے کو بھی کافی عزت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ’دو بیگھہ زمین‘ کی بے پناہ مقبولیت کے بعد نروپا رائے کے پاس فلموں کی لائن لگ گئی اور اُسی برس وی شانتارام کی فلم ’تین بتی چار راستہ‘ میں بھی وہ دکھائی دیں۔ان کامیابیوں کے باوجود نروپا رائے کی دیوی والی شبیہ فلم بینوں کے ذہنوں میں محفوظ رہی اور ان کی لگاتار کئی دھارمک فلمیںایسی ہی آتی رہیں جن میں ان کے دیوی والے کردار تھے۔ نروپا رائے ہندی فلموں کی شاید اکیلی ایسی اداکارہ ہیں جنہوں نے ۴۵۔۴۰؍فلموں میں دیویوں کے کردار ادا کئے ہیں۔ ایک زمانے میں جب وہ کئی فلموں میں پاروتی دیوی کا کردار ادا کر چکی تھیں اور کافی مقبول ہو گئی تھیں تو ان کے دروازے پر صبح کو درشن کرنے والوں کی لائن لگی رہتی تھی۔ بعد میں انہوں نے ’سندباد سیلر‘ میں ایک بُری عورت کا کردار ادا کیا اور ’چال باز‘ اور’ بازی گر‘ فلموں میں اسٹنٹ قسم کے کردار ادا کئے تب ان کی دیوی والی امیج ٹوٹی۔ فلم لاڈلی میں انہوں نے ایک بُری ماں کا کردار ادا کیا تھا جسے لوگوں نے ناپسند کر دیا کیونکہ لوگ ان کو ایک نیک عورت، ایثار اور قربانی اور وفا کی دیوی والے کردار میں ہی دیکھنا پسند کرتے تھے۔
فلمی ماں کے طور پر مشہور نروپا رائے ایک زمانے میں اسکرین کی دیوی کہلاتی تھیں اور ان کے ادا کئے ہوئے فلمی کردار بیشتر اچھی عورت کے ہوتے تھے جو اپنے دیور یا نندوں کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی سے پیش آتی ہے، شوہر کی فرمانبردار ہوتی ہے اور ساس کی لعن طعن سن کر بھی خاندان کو اپنے پریم اور خلوص کے دھاگے میں باندھے رہتی ہے۔ اس طرح کے کردار کئی فلموں میںادا کرکے اس زمانے میں نروپا رائے نے اسکرین دیوی کا خطاب حاصل کیا تھا۔ حالانکہ ۱۹۵۴ء میں فلم ’اولاد‘ میں ایک بار پھر وہ بلراج ساہنی کے ساتھ تھیں اور پھر ۱۹۵۵ءمیں امر کمار کی فلم گرم کوٹ میں بھی وہ بلراج ساہنی کی ہیروئن تھیں، مگر ۱۹۵۵ء میں ہی سبودھ مکھرجی کی فلم منیم جی نمائش کیلئے پیش کی گئی، تو اس فلم میں پہلی بار نروپا رائے نے ماں کا کردار ادا کیا تھا۔ اُس وقت ان کی عمر کافی کم تھی اور وہ دبلی پتلی بھی تھیں۔ بالوں میں کافی سفیدی لگاکر اور لباس اور میک اپ کے ذریعہ ماں بنانا پڑتا تھا مگر بعد میں تو انہوں نے ماں کا کردار اتنی بار اور اتنی خوبصورتی سے ادا کیا کہ اصلی مائیں بھی ان پر رشک کرنے لگیں۔ اس کے بعد ۱۹۶۳ء میں بی آر چوپڑا کی فلم ’گمراہ‘ اور کشور ساہو کی فلم ’گرہستی‘ میں اشوک کمار کے مقابل انہوں نے بہترین کردار ادا کئے۔ بلراج ساہنی اور اشوک کمار کے ساتھ ان کا تال میل خوب بیٹھتا تھا۔۱۹۶۷ء میں چانکیہ کی فلم ’رام اور شیام‘ میں انہوں نے دلیپ کمار کی بہن کا کردار بڑی عمدگی کے ساتھ ادا کیا، جو اپنے بد کردار شوہر کے تمام مظالم برداشت کرتے ہوئے بھی اپنے بھائی پر جان چھڑکتی ہے۔ اِسی طرح ۱۹۷۰ء میں اے بھیم سنگھ کی فلم گوپی میں انہوں نے دلیپ کمار کی بھابی کا کرداربڑی خوبی سے ادا کیا تھا۔
ایک زمانہ تھا جب فلم کی کہانی میں کچھ چیزوں کو خاص اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ مثال کے طور پر فلم میں کامیڈین کا اہم کردار ہوتا تھا۔ وہ یا تو ہیرو کا جگری دوست ہوتا تھا یا پھر ویلن کا چمچہ ہوتا تھا۔ اسی طرح ہیروئین کی ایک خاص سہیلی بھی ہوتی تھی، جو اس کے ساتھ گانے گاتی تھی، قہقہے لگاتی تھی اور اس کے محبوب کی جدائی میں خود بھی آنسو بہاتی تھی۔ فلم کے آخری حصے میںہیرو ہیروئین کیلئے قربانی دیتے ہوئے یا تو اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتی تھی یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دونوں کی زندگی سے بہت دور چلی جاتی تھی۔ بالکل اسی طرح فلم کی کہانی میں ماں کے کردار کو بھی ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔ وہ اولاد پر جان چھڑکتی تھی، شوہر کیلئے ہر دم فکر مند رہتی تھی اور ممتا سے لبریز ہوکر اولاد کیلئے شوہر اور سماج سے لڑ پڑتی تھی۔ فلموں کے مختلف دور میں مختلف اداکارائوں نے ماں کے کردار کو جلا بخشی ہے مگر نروپارائے نے جس طرح فلموں میں ماںکے کردار کو پیش کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اس سلسلے کی سب سے مقبول فلم تھی سلیم جاوید کی دیوار، اس فلم میں جتنا مضبوط کردار فلم کے ہیرو امیتابھ بچن کا تھا، اس سے بھی کہیں زیادہ مضبوط کردار میں نروپا رائے کیلئے ماں کا رول لکھا گیاتھا۔ اِس زمانے میں جبکہ کیمرہ فلم کی ہیروئین اور ہیرو کے چہروں سے ہٹتا ہی نہیں ہے، اور بڑے بڑے اسٹار اپنی من مانی کرتے ہیں، اگر کسی فلم میں ماں کا کردار ہو بھی تو کیمرہ بہت کم اس کو کور کرتا ہے۔ کلوز اپ تو نا کے برابر ہوتے ہیں۔ اگر لانگ شاٹ یا مڈلانگ شاٹ میں ماں کو دکھانا بھی ہوتا ہے تو اس کے ساتھ میں ہیرو یا ہیروئین ضرور فریم میں ہوتے ہیں۔ اکیلی ماں بیچاری پردے پر شاذو نادر ہی نمودار ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں فلم دیوار کی ماں کے کردار کو جو اہمیت دی گئی وہ قابل ستائش ہے۔ اس فلم میں ماں کے کردار کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ نروپا رائے نے اس کردار کو بڑی محنت اور پورے خلوص دل کے ساتھ ادا کیا۔ انہوں نے اتنے بڑے بڑے ستاروں کی موجودگی میں اپنے اس کردار کی پہچان الگ ہی کرائی ہے۔ ۱۹۷۵ء کی یش چوپڑا کی فلم ’دیوار‘ کی کامیابی کے بعد نروپا رائے مستقل طور پر امیتابھ بچن کی فلموں میں ان کی ماں کا کردار ادا کرنے لگیں اور یہی ان کی پہچان بن گئی۔ انہوں نے امیتابھ بچن کے ساتھ کئی یادگار فلموں میںاپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
نروپا رائے نے اپنی فلمی زندگی کے تین انتہائی مختلف دور انتہائی کامیابی سے گزارے ہیں۔ سب سے پہلے وہ ایک شوخ اور طرح دار ہیروئین کے روپ میں فلم بینوں کے سامنے آئیں۔ اس کے بعد انہوں نے چلبلی اور ایثار اور قربانی کی تصویر بنی بھابی کے کردار میں فلم بینوں کو متاثر کیا اور تیسرے دور میں ایک جذباتی ماں کے روپ میں خاص مقام حاصل کیا۔
نروپا رائے ہندوستانی فلموں کی شاید پہلی ایسی اداکارہ ہیں جن کی ایک برس میں لگاتار ۱۷؍ فلمیں ۱۹۵۷ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئیں۔ لگ بھگ دو سو ساٹھ فلموں میں کام کرنے کے بعد بھی نروپا رائے صرف سات فلموں کو خاص اہمیت دیتی ہیں اور فخر سے بتاتی ہیں کہ یہی سات فلمیں ان کے فلمی جیون کا کُل اثاثہ ہیں۔ان فلموں کے نام ہیں ’’دو بیگھہ زمین، ہیرا موتی، ہر ہر مہادیو، لاڈلا، اولاد، گرہستی اور دیوار۔‘‘
بمل رائے کی فلم ’’دو بیگھہ زمین‘‘ میں نروپا رائے کا کردار ایک ایسی گنوار گھریلو عورت کا کردار تھا جس کا استحصال ہو رہا ہے۔اس فلم میں کیمرے کا سامنا کرنے سے قبل انہوں نے اپنے آبائی گائوں بلساڑہ میں گائوں کی عورتوں کے رہن سہن اور طور طریقوں کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا اور وہاں کی زندگی کو قریب سے محسوس کیا ، یہی وجہ تھی کہ نروپا رائے نے اس فلم میں بلراج ساہنی کی بیوی کے کردار کو زندۂ جاوید بنا دیا تھا۔
واسن کی فلم ’لاڈلا‘ میں نروپا رائے کا کردار ایک خودمختار قسم کی ویمپ (بُری عورت) کا تھا جو خود اپنا بچہ نہ ہونے کی صورت میں اپنی بہن کا بچہ پالتی ہے اور جب کافی دنوں بعد اس کی بہن بچہ واپس مانگتی ہے تو وہ اس بچے کو کسی طور پر واپس کرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ الٹا اپنی بہن کو بُرا بھلا کہتی ہے۔ انہوں نے فلمی دنیا کے کئی رنگ دیکھے ہیں اور بڑے قریب سے ہر دور کو محسوس کیا ہے۔ وہ ہندوستانی فلموں کی ان چند اداکارائوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے تقریباً تین فلمی نسلوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ لگ بھگ ۴۷؍برس تک فلمی دنیا سے وابستہ رہیں۔
پہلے وہ رنجیت اسٹوڈیو میں باقاعدہ ملازم ہوا کرتی تھیں۔ ساتھ میں مدھوبالا جیسی دلچسپ ساتھی تھی۔ اِن لوگوں کے آپسی تعلقات خلوص پر مبنی ہوتے تھے۔ آج کی طرح مقابلہ آرائی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی فلم کی کامیابی سے اُن کی قیمتیں بڑھتی تھیں۔ دادا منی اشوک کمار ان کے سب سے مخلص ساتھی اداکار رہے ہیں۔ انہوں نے ہی نروپا رائے کو اداکاری کے بنیادی اصول، ٹائمنگ، عمل اور رد عمل وغیرہ سکھائے۔ ایک طرح سے وہ ان کو گرو بھی مانتی ہیں۔ ان کے ساتھی اداکاروں میں بلراج ساہنی کے ساتھ ان کی جوڑی خوب جمتی تھی۔۱۳؍ اکتوبر ۲۰۰۴ء کو وہ اس جہان فانی سےکوچ کرگئیں۔