Inquilab Logo

پروین بابی کی تصویر دُنیا کے مشہور رسالہ ’ٹائم‘ نے اپنے سرورق پر شائع کی تھی

Updated: January 20, 2020, 10:46 AM IST | Agency | Mumbai

پروین بابی احمد آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں کہ فلم ’چرِترا‘(کرکٹر سلیم دُّانی کے مقابل) میں کام کیا لیکن یہ فلم ناکام رہی۔ اسی طرح ان کی دوسری فلم ’دھویں کی لکیر‘ بھی ناکام رہی لیکن امیتابھ بچن کی ساتھ ان کی اگلی فلم ’مجبور‘ نے انہیں بالی ووڈ میں ہیروئن کے طور پر بے پناہ شہرت بخشی۔

پروین بابی ۔ تصویر : آئی این این
پروین بابی ۔ تصویر : آئی این این

پروین بابی احمد آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں کہ فلم ’چرِترا‘(کرکٹر سلیم دُّانی کے مقابل) میں کام کیا لیکن یہ فلم ناکام رہی۔ اسی طرح ان کی دوسری فلم ’دھویں کی لکیر‘ بھی ناکام رہی لیکن امیتابھ بچن کی ساتھ ان کی اگلی فلم ’مجبور‘ نے انہیں بالی ووڈ میں ہیروئن کے طور پر بے پناہ شہرت بخشی۔ ۱۹۷۵ء میں ’دیوار‘ کیا ریلیز ہوئی، بالی ووڈ کو ایک ایسی ہیروین مل گئی جونہ صرف دیکھنے میں خوبصورت تھی بلکہ کھلے بالوں اور کم لباسی کے ساتھ ساتھ وہ کردار ادا کرنے کو تیار تھی جو کہ ۷۰ء کے عشرے کی دوسری ہیروئینوں کیلئے بہت ’بولڈ‘ تھے۔ ’دیوار‘ کے بعد’ امر اکبر انتھونی‘ ان کی ایک اور سپر ہٹ فلم رہی۔ بالی ووڈ پر پروین بابی کے اثرات کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ امریکی جریدے ’ٹائم‘ نے اپنے سرورق پر ان کی تصویر شائع کی تھی۔ فلموں سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ تنہائی کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن گئیں تھیں اور اُن فلیٹ ہی میں ان کا انتقال ہوا تھا۔
 پروین بابی دُنیا کاتمام عیش و آرام میسر تھا اور دولت کی فراوانی کے باوجود ان کی موت انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہوئی تھی۔ ’امر اکبر انتھونی‘، ’نمک حلال‘، ’کالیا‘، ’دیوار‘، ’سہاگ‘، ’دی برننگ ٹرین‘، ’خوددار‘ اور ’رضیہ سلطان‘ جیسی سپر ہٹ فلموں کی ہیروئن جس کی تصویر دُنیا کی مشہور رسالہ ٹائم میگزین نے اپنے سرورق پر شائع کی تھی، ۷۰ء اور ۸۰ء کے عشرے کی یہ گلیمر گرل اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن شمار کی جاتی تھی جو اپنے فلیٹ سے اس حالت میں مردہ پائی گئی کہ شوگر میں مبتلا تھیں۔ جسم میں پیدا ہونے والے زخموں ’گینگرین‘ ی وجہ سے ان کے پورے جسم میں کیڑے پڑ چکے تھے ۔ لاش کے قریب ملنے والے وہیل چیئر سے پتہ چلتا تھا کہ اپنی عمرکے آخری ایام میں وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور تھیں۔ پیٹ پھولاہوا ہونے کے علاوہ جسم سے اُٹھنے والے شدیدتعفن کی وجہ سے موقع پر موجود لوگوں کا کمرے میں رکنا مشکل ہو رہا تھا۔ تفتیش کہ بعد پتہ چلا کہ ۹۰ء کے عشرے میں بڑھتی عمر، ناکام معاشقوں اورخستہ مالی حالت کے سبب پروین بابی گمنامی کی دُنیا میں چلی گئی تھی،کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ کہاں گئیں اور ان کے ساتھ کیا بیتی۔ فلیٹ سے لاش ملنے کے بعد بھید کھلا کہ معروف اداکارہ یہاں تنہا رہتی تھیں جبکہ ذیابیطس نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ 
 گجرات کے جونا گڑھ کے مسلم کنبہ میں ۴؍اپریل ۱۹۴۹ء کو پیدا ہونے والی اس انگریزی پوسٹ گریجوٹ خاتون کا عبرتناک انجام ہوا۔ فلیٹ سے اُٹھنے والی سڑاند اور بدبو، دروازے کے باہر مجتمع اخباروں اور دودھ کے پیکٹوں نے، جو روزانہ اس کے گھر آتے تھے، پڑوسیوں کو متوجہ کردیا۔ ۳؍ دن تک لگنے والے اسی ڈھیر کی وجہ سے انہوں نے پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد پروین بابی کے موت کا راز ۲۰؍ جنوری ۲۰۰۵ء کو فاش ہوا۔ اپنی اداوں سے کروڑوں لوگوں کے دلوں کی ملکہ بننے والی اداکارہ اس طرح مردہ پائی گئی کہ لاوارث جانوربھی شرما جائے۔ 
 کوپر اسپتال  میں پوسٹ مارٹم کے بعد پتہ چلا کہ ۰ ۳؍دن سے فاقہ کی شکار تھیں اور ان کے پیٹ میںدوا کے جز الکحل کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK