Inquilab Logo

ایک مذہب ایک زبان کو مسلط نہیں کیا جا سکتا:جے این یو وائس چانسلر

Updated: April 25, 2024, 8:38 PM IST | New Delhi

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے وائس چانسلر سنتشری ڈی پنڈت نے ہندوستان میں ایک مذہب، ایک لباس اور ایک زبان کو مسلط کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے سہ لسانی فارمولے کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ لباس اور حجاب کو ذاتی پسند قرار دیا۔

Santishree Pandit. Photo: INN
سنتشری پنڈت۔ تصویر: آئی این این

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے وائس چانسلر سنتشری ڈی پنڈت نے بدھ کو پی ٹی آئی کو بتایا کہ ہندوستان میں مذہب، لباس یا زبان میں یکسانیت نافذ نہیں کی جانی چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’دونوں (جواہر لال) نہرو اور اندرا گاندھی سہ زبانی فارمولے کے حامی تھے کیونکہ ہندوستان میں یکسانیت کسی بھی شکل میں نافذالعمل نہیں ہے۔ ‘‘ ہندی بولنے والی ریاستوں میں تین زبانوں کے فارمولے میں ہندی اور انگریزی کے ساتھ ایک جدید ہندوستانی زبان، ترجیحاً جنوبی زبانوں میں سے ایک کا مطالعہ شامل ہے۔ دیگر ریاستوں میں فارمولہ تجویز کرتا ہے کہ ہندی کا مطالعہ علاقائی زبان اور انگریزی کے ساتھ کیا جائے۔ 

یہ بھی پڑھئے: متحدہ عرب امارات میں سیلاب کے نتیجے میں ۴؍ہلاکتیں ، آلودہ پانی کے سبب کچھ لوگ بیمار

ہندی کو قومی زبان قرار دینے کیلئے بعض طبقات کی طرف سے دباؤ کے بارے میں پوچھے جانے پر وائس چانسلر نے کہا کہ ’’ایک زبان کو مسلط نہیں کیا جانا چاہئے۔ اگر کچھ لوگ کچھ ریاستوں میں اسے (سرکاری زبان) کو ہندی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو وہ کرسکتے ہیں۔ لیکن جنوب میں یہ مشکل ہو گا۔ مشرقی ہندوستان حتیٰ کہ مہاراشٹر میں مجھے نہیں لگتا کہ ہندی قابل قبول ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ زبان ایک حساس مسئلہ ہے اس تعلق سے محتاط رہنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہاں کوئی ایک مذہب کام کرے گا کیونکہ یہ انفرادی مسائل ہیں، لیکن لوگ یہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں پنڈت نے کہا کہ یہ ذاتی انتخاب ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں ڈریس کوڈ کے خلاف ہوں۔ ’’میرے خیال میں (تعلیمی) مقامات آزاد ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی حجاب پہننا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے اور اگر کوئی اسے نہیں پہننا چاہتا تو اسے مجبور نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: آر بی آئی کی کوٹک مہندرا بینک کے نئے آن لائن صارفین اور کریڈٹ کارڈ پر روک

فروری ۲۰۲۲ءمیں اس وقت کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت کرناٹک حکومت نے ایسے ملبوسات پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا تھا جو مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرتے ہیں۔ دسمبر ۲۰۲۱ء میں اڈوپی کے ایک کالج نے چھ لڑکیوں کو اسکارف لپیٹنے پر کلاس میں جانے سے روک دیا۔ لڑکیوں نے کالج میں احتجاج کیا اور جلد ہی اس طرح کے مظاہرے ریاست کے دیگر حصوں میں پھیل گئے۔ طالبات نے اس حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس نے پابندی کو برقرار رکھا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری نہیں ہے۔ 
اس کے بعد اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس نے اکتوبر ۲۰۲۲ءمیں الگ الگ فیصلہ سنایا۔ دو ججوں کی بنچ نے کہا کہ اس معاملے کو چیف جسٹس کے سامنے رکھا جائے گا تاکہ وہ مستقبل کے لائحہ عمل پر ان کی ہدایات دیں۔ سپریم کورٹ نے ابھی تک اس معاملے کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل نہیں دی ہے۔ گزشتہ سال کرناٹک میں کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی نے کہا کہ اس کی حکومت ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے حکم کو واپس لے گی۔ تاہم، اس حوالے سے حکم نامہ جاری ہونا باقی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK