Inquilab Logo

سنیل دت ایک اچھے انسان بھی تھے

Updated: January 26, 2020, 1:19 PM IST | Anees Amrohi

’مدرانڈیا‘ میں سنیل دت نے منفی کردار نہایت کامیابی کے ساتھ ادا کیا تھا مگر اپنی ہیرو کی امیج کو توڑکر فلم ’پڑوسن‘ میں پہلی بار سنیل دت نے ایک کامیڈی کردار ادا کیا

سنیل دت ۔ تصویر : آئی این این
سنیل دت ۔ تصویر : آئی این این

’مدرانڈیا‘ میں سنیل دت نے منفی کردار نہایت کامیابی کے ساتھ ادا کیا تھا مگر اپنی ہیرو کی امیج کو توڑکر فلم ’پڑوسن‘ میں پہلی بار سنیل دت نے ایک کامیڈی کردار ادا کیا، حالانکہ اس میں محمود اور کشور کمار جیسے کامیڈین بھی موجود تھے مگر اپنے بھولے پن اور احمقانہ حرکتوں والے اس کردار میں سنیل دت نے بہترین اداکاری پیش کی۔ نرگس کے انتقال کے بعد انہوںنے ایک بار پھر اپنی امیج کو توڑا اور ویلن اور اینگری مین کے کردار ادا کئے۔ فلم’ زخمی انسان‘ اور ’بھائی بھائی‘ میں انہوںنے اینگری مین  اور بی آر فلمز کی فلم’ ۳۶؍گھنٹے‘ میں انہوںنے ویلن کا کردار ادا کیا۔ اسی طرح فلم’ گیتا میرا نام‘ میں بھی وہ اینگری مین اور ویلن کے ملے جلے کردار میں نظر آئے۔ یہ سب کوشش انہوںنے اپنی کردار نگاری اور اداکاری میں تنوع پیدا کرنے کیلئے کی تھی۔
 سنیل دت نے نجی زندگی میں جہاں بہت سے سُکھ دُکھ دیکھے وہیں اپنی فلمی زندگی میں کئی تجربے بھی کئے۔ انہوںنے مارکیٹ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فلم ’یادیں‘ بنائی۔ یہ ایک عجیب تجرباتی فلم تھی، جس میں سنیل دت پوری فلم میں اکیلے اداکار تھے اور باقی ان کے چاروں طرف بکھری ہوئی آوازیں تھیں، جو اُن کی یادوں سے متعلق تھیں۔ اس کا پریمئر بمبئی کے مراٹھا مندر میں ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوںنے راجستھان کی خشک زندگی پر ایک تجرباتی فلم ’ریشما اور شیرا‘ بنائی۔ ان دونوں فلموں کی تعریف دلیپ کمار نے بھی کی تھی۔
 ان کے مکالموں کی ادائیگی اتنی صاف اور پُراثر ہوتی تھی کہ فلم بینوں کی توجہ پوری طرح ان کی طرف مرکوز رہتی تھی۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ وہ  اردو پڑھے ہوئے تھے اور آخر تک اردو  ہی میں اسکرپٹ لیتے تھے اور خود بھی اپنا اسکرپٹ اردو میں لکھتے تھے۔ ان کا تلفظ بھی بہت صحیح ہوتا تھا۔ ایک وقت تھا جب سنیل دت نے فلم ’وقت‘ میں کام کیا تھا اور لوگوں نے اس کو سراہا تھا۔ پھر ’مہربان، مجھے جینے دو، پڑوسن، میرا سایہ اور خاندان‘ جیسی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھاکر شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ درمیان میں کچھ وقت ایسا بھی آیا جب سنیل دت کی مارکیٹ ویلیو کم ہوگئی اور ان کی شہرت میں بھی کمی آگئی۔ کچھ ہی برسوں کے بعد فلم ’ہیرا‘ اور ’پران جائے پر وچن نہ جائے‘ میں وہ پھر ایک نئے روپ میں لوٹ کر آئے۔ ان فلموں کے ہٹ ہوتے ہی سنیل دت ایک بار پھر فلم انڈسٹری پر چھا گئے ۔اسی دوران فلم ’سیتا اور گیتا‘ میں لوگوں نے سنیل دت کو ایک نئے انداز میں دیکھا۔ جونی کے کردار میں انہوںنے پھر سے انڈسٹری پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک اسٹار نہیں بلکہ اداکار ہیں۔ 
 بعد میں فلم ’ناگن‘ کی کامیابی  سے انہیں کافی فائدہ ہوا۔ ان کی آخری فلم’ مُنّا بھائی ایم بی بی ایس‘ تھی جس میں ان کے بیٹے سنجے دت ہیرو تھے۔ سنیل دت نے ایک ذمہ دار باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ۱۹۸۱ء میں اپنے بیٹے سنجے دت کیلئے فلم ’راکی‘ بنائی۔ انہوںنے سنجے دت سے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد وہ سنجو بابا کی کوئی مدد نہیں کریںگے اور اُسے خود اپنی صلاحیتوں کے سہارے ہی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنانا ہوگا۔ نرگس کی بڑی تمنا تھی کہ وہ بیٹے کو سنہرے پردے پر دیکھیں مگر ’راکی‘ مکمل ہونے سے قبل ہی نرگس دت کی زندگی مکمل ہو گئی اور وہ یہ فلم نہیں دیکھ سکیں۔
 دلیپ کمار کے بعد سنیل دت ہی فلمی دنیا کی دوسری شخصیت ہیں جن کو بمبئی کے شیرف کے عہدے کیلئے نامزد کیا گیا اور انہوںنے سچے دل اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض نبھائے۔ نرگس کو جب کینسر کے علاج کیلئے امریکہ جانا پڑا تو سنیل دت نے ان کی خدمت اور تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا اور اپنے سارے کام، سارے پروگرام کینسل کرکے  انہیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر خدا کی مرضی کے آگے انسان کی کب چلی ہے؟ لہٰذا نرگس ۳؍مئی ۱۹۸۱ء کوسنیل دت کو اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں اور اس طرح سنیل دت کا سب سے عزیز دوست، محسن اور ہمدرد ان سے جدا ہو گیا۔ سنیل دت کی سیکولر شخصیت کی سب سے بڑی خوبی اسی وقت لوگوں کے سامنے آئی جب انہوں نے نرگس کی وصیت کے مطابق  اسلامی رسوم کے مطابق ان کی تدفین وغیرہ کی۔
 سنیل دت عزم اور حوصلہ کا ہی دوسرا نام تھا۔ ۱۹۸۱ء میں کینسر کے موذی مرض سے نرگس کا انتقال ہو گیا تو وہ جیسے ٹوٹ سے گئے مگر جلد ہی انہوںنے خود پر قابو پایا اور اسی موضوع پر فلم ’درد کا رشتہ‘ بنائی جو اپنے آپ میں ایک بہترین فلم تھی۔ سنیل دت نے اس فلم کی تمام آمدنی کینسر اسپتال میں بطور عطیہ دے دی۔ اس کے علاوہ ٹاٹا میموریل اسپتال میں کینسر وارڈ نرگس دت کے نام پر کھلوایا تاکہ کینسر سے حتی الامکان جنگ جاری رکھی جا سکے۔
   راجیو گاندھی کے دور میں سنیل دت نے کانگریس جوائن کیا اور پارلیمنٹ کے الیکشن میں بمبئی سے حصہ لیا۔ ان کے مقابلے میں بہت مشہور اور مقبول سیاسی شخصیت رام جیٹھ ملانی تھے مگر سنیل دت کی اپنی شخصیت اور ہردلعزیزی اور ان کی سماجی خدمت کی وجہ سے انہوں نے شاندار طریقے سے فتح حاصل کی اور ۱۹۸۴ء میں لوک سبھا پہنچے۔ ۱۹۸۶ء میں سنیل دت کو حکومت کی طرف سے ’پدم شری‘ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۸۹ء اور پھر ۱۹۹۱ء میں بھی وہ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے۔ 
 ۱۹۹۲ء میں بمبئی بم دھماکوں میں اپنے اداکار بیٹے سنجے دت کے ٹاڈا مقدمات میں الجھنے کی وجہ سے سنیل دت نے  ۱۹۹۶ء اور ۱۹۹۸ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا لیکن ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۴ء میں انہوںنے پھر نمایاں کامیابی حاصل کی۔۲۰۰۴ء میں منموہن سنگھ سرکار میںسنیل دت کو امور نوجوانان اور کھیل کا وزیر مقرر کیا گیا۔
  ملک و قوم پر جب بھی کوئی مشکل آتی تھی تو دلیپ کمار اور سنیل دت ہمیشہ آگے بڑھ کر ملک کی خدمت میں لگ جاتے تھے۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں جب پنجاب میں دہشت گردی نے سر اُبھارا تو سنیل دت نے امن اور شانتی کا پیغام لے کر بمبئی سے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل تک پیدل مارچ کیا۔اُن کے سینے میں شروع ہی سے ایک درد مند انسان کا دل دھڑکتا تھا۔ انہوں نے یکم اگست ۱۹۵۰ء کو بمبئی کے تمام اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ بنا کر لوگوں کو چونکا دیا تھا۔ ۱۹۸۹ء میں بمبئی کا شیرف بننے کے بعد سنیل دت کو عام لوگوں کی زندگی کو زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 
 ایک چھوٹے سے دیہات میں پیدا ہونے والے ریڈیو انائونسر کو وقت نے پارلیمنٹ میں بٹھا دیا۔ اس میں جتنا ہاتھ وقت کا ہے، اس سے کہیں زیادہ سنیل دت کی اپنی محنت، لگن اور جذبۂ ہمدردی کا بھی دخل ہے۔تین چار دن کی مسلسل بیماری کے بعد ۲۵؍مئی ۲۰۰۵ء کی صبح تقریباً ۱۱؍ بج کر ۴۰؍ منٹ پر سنیل دت کو نیند میں دل کا دورہ پڑا۔اس طرح ایک فنکار، ایک سماجی خدمت گار اور کئی فلموں کا خالق اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ فلم انڈسٹری کی تقریباً تمام ہستیاں اس فرشتہ صنف انسان کو الوداع کہنے آئی تھیں۔

sunil dutt Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK