Inquilab Logo

طلعت محمود نے’اے میرے دل کہیں اور چل‘ جیسے متعدد گیتوں کواپنی آواز سے لا زوال بنا دیا

Updated: February 24, 2023, 1:01 PM IST | Mumbai

’اے میرے دل کہیں اور چل‘ جیسے متعدد گیتوں کو اپنی آواز سے لازوال بنا دینے والے برصغیر کے لیجنڈ گلوکار و اداکار طلعت محمود کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا

photo;INN
تصویر :آئی این این

اے میرے دل کہیں اور چل‘ جیسے متعدد گیتوں کو اپنی آواز سے لازوال بنا دینے والے برصغیر کے لیجنڈ گلوکار و اداکار طلعت محمود کو بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا اور محض ۱۵؍سال کی عمر میں ہی انھوں نے لکھنؤ ریڈیو سے اپنے فنی کریئر کا آغاز کر دیا تھا۔ طلعت محمود کی پیدائش۲۴؍ فروری۱۹۲۴ء کو لکھنؤ کے منظور محمود کے ہاں ہوئی۔ ان کے والد بھی گلوکار تھے۔ یہ اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھے۔ طلعت نے چھوٹی سی عمر میں اپنی موسیقی کی صلاحیتیں دکھانا شروع کر دیں تھیں۔ انہوں نے موسیقی کی تعلیم ماریشس کالج سے حاصل کی تھی۔ ۱۶؍ سال کی عمر میں طلعت کو کمل داس گپتا کا گیت ’سب دن ایک سمان نہیں ہوتے‘ گانے کا موقع ملا اور یہ نغمہ لکھنؤ میں کافی مشہور ہوا۔
 ۱۹۴۴ء میں ان کے ایک غیر فلمی گیت `تصویر ’تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی ‘ سے ان کی شہرت پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ چونکہ شکل و صورت سے بھی طلعت محمود ایک خوبرو انسان تھے لہٰذا کئی فلمسازوں نے انہیں اپنی فلموں میں بطور ہیرو بھی سائن کیا۔ طلعت محمود نے بطور اداکار راج لکشمی، تم اور میں، آرام، دلِ نادان، ڈاک بابو، وارث، رفتار، دیوالی کی رات، ایک گاؤں کی کہانی، لالہ رخ، سونے کی چڑیا اور مالک نامی فلموں میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔
 نیو تھیٹرس نے۱۹۴۵ء میں بنی فلم راج لکشمی نے طلعت کو  اداکار و گلوکار بنایا۔ سنگیت کار رابن چٹرجی کی ہدایت میں اس فلم میں ان کے گائے ’جاگو مسافر جاگو‘ گانے کو سراہا گیا۔بعدازاں طلعت نے ممبئی کا رخ کیا اور انل بسواس سے جاکر ملے۔ انل بسواس نے انہیں فلمستان اسٹوڈیو کی فلم آرزو میں پردے کے پیچھے سے گانے کا موقع دیا۔ دلیپ کمار کے اوپر فلمایا گیا نغمہ ‘اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو’ ہٹ ہوگیا اور طلعت کی کپکپاتی آواز سنگیت کاروں کی نگاہ میں جم گئی۔طلعت محمود نے بطور گلوکار دیوداس، بوٹ پالش، حقیقت، ٹیکسی ڈرائیور، بابُل، سزا، ترانہ، نادان، مدہوش، سنگدل، داغ، انوکھی، فٹ پاتھ، بارہ دری، سجاتا، ایک پھول چار کانٹے، پریم پتر جیسی فلموں کے لیے گیت گائے۔ ان کے یادگار گیتوں میں ’جائیں تو جائیں کہاں، جلتے ہیں جس کیلئے، اے غمِ دل کیا کروں، پھر وہی شام وہی غم، شامِ غم کی قسم، یہ ہوا یہ رات یہ چاندنی، تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی، میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا، اے میرے دل کہیں اور چل، سینے میں سلگتے ہیں ارمان، اتنا نہ مجھ سے تو پیار بڑھا، راہی متوالے، زندگی دینے والے سُن، کوئی نہیں میرا اس دنیا میں‘، ’ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا، ہوکے مجبور مجھے اس نے بھلایا ہوگا‘، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اپنی فلمی زندگی میں طلعت محمود نے سب سے زیادہ گانے دلیپ کمار کی فلموں کے لیے ہی گائے ہیں۔۶۰ء کی دہائی شروع ہوتے ہی فلموں میں ان کے گانے بہت کم ریکارڈ ہونے لگے۔ فلم سجاتا کا نغمہ ’جلتے ہیں جس کے لئے‘ ان کا یادگار نغمہ ہے۔طلعت محمودکو۱۹۹۲ء  میں فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا اور حکومت ہند نے پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا۔طلعت محمود کا انتقال۹؍ مئی۱۹۹۸ء کوممبئی میں  ہوا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK