• Tue, 18 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

وی شانتا رام کی فلمیں ایک تحریک کا درجہ رکھتی ہیں

Updated: November 18, 2025, 4:11 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آئیے آج ایک ایسے مردِ فن کی زندگی کے اوراق کھولتے ہیں جس نےہندوستانی سینما کو محض فلموں کی دنیانہیں سمجھا، بلکہ اسے ایک تہذیب، ایک درسگاہ، ایک تحریک کی صورت دی۔

V. Shantaram, creator of purposeful films. Photo: INN
بامقصد فلموں کے خالق وی شانتا رام۔ تصویر:آئی این این
آئیے آج ایک ایسے مردِ فن کی زندگی کے اوراق کھولتے ہیں جس نےہندوستانی سینما کو محض فلموں کی دنیانہیں سمجھا، بلکہ اسے ایک تہذیب، ایک درسگاہ، ایک تحریک کی صورت دی۔ اس عظیم فنکار کا نام وی شانتا رام ہے۔یہ وہ نام ہے جس کی روشنی نے نہ صرف گزرے ہوئےزمانوں کو جگمگایابلکہ آنے والی نسلوں کو بھی راستہ دکھایا۔ان کے فن کی خوشبو آج بھی اسی لطافت سے مہکتی ہے جیسے پرانےاسٹوڈیو کے کچے فرش پر نئے فلم رول کھلنے کی خوشبو مہکا کرتی تھی۔۱۸ نومبر ۱۹۰۱ء کو مہاراشٹر کےکولہاپورمیں پیدا ہونے والے  شانتارام راجارام وینکدرےایک متوسط، محنت کش خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن غربت میں گزرا، لیکن اس غربت نے ان کے اندر وہ سختی اور وہ مشاہدہ پیدا کیا جس نے بعد میں ان کی فلموں کو ایک سچائی، ایک درد اور ایک سماجی شعور عطا کیا۔انہوں نے باقاعدہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی، مگر زندگی کے اسکول نےانہیں وہ سبق سکھائےجن تک بڑے بڑے ادارے بھی رسائی نہیںرکھتے۔ نوجوانی میں اسٹیج پر کام کیا، پھر فلمی دنیا کے دروازے ان پر کھلے، مگر ان دروازوں سے اندر جانے والا یہ لڑکا بعد میں پوری عمارت کا معمار بن گیا۔
شانتا رام نےاپنا سفر۱۹۱۹ء میں بی جی واڈیاموویٹون کے اسٹوڈیوزسے بطور ٹیکنیشن شروع کیا۔ کیمرہ، لائٹس، سیٹ، رول، ساؤنڈ، انہوں نے ہر فن کو نزدیک سے دیکھا۔۱۹۲۰ء کے عشرے میں جب خاموش فلموں کا دور تھا، شانتا رام نےبطور ایکٹر بھی کام کیامگر ان کی اصل لگن ہدایت کاری تھی۔ چند سال بعدانہیں موقع ملا اور انہوں نے اپنی پہلی فلم ’نیتا جی پالکر‘ (۱۹۲۷) بنائی۔اور پھر یوں ہوا کہ ہندوستانی سینما میں ایک نئے باب نے جنم لیا،سادہ، سچا، سماجی شعور سے بھرپور، فکر انگیز فلموں کا باب۔۱۹۳۲ء میں وی شانتا رام نےپربھات فلم کمپنی کی بنیاد رکھی۔ یہ صرف ایک اسٹوڈیو نہیں تھا، یہ ایک تحریک تھی جو فلموں کے ذریعے معاشرتی سوال اٹھاتی تھی، اصلاحات کی بات کرتی تھی، اور انسان کو انسان رہنے کا سبق دیتی تھی۔یہاںسےکئی ایسی فلمیں وجود میں آئیں جو آج ہندوستانی سینما کے لیے کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں۔ان فلموں میں تکنیکی جدّت بھی تھی، موضوعاتی گہرائی بھی، اور بیانیے کا حسن بھی۔
۱۹۴۲ءمیںشانتارام نےپربھات کمپنی کو چھوڑ کر ممبئی میں ’راج کمل کلا مندر‘قائم کیا، جو وقت کے ساتھ ہندوستان کی سب سے جدید اور معیاری فلم سازی کی جگہ بن گئی۔ اس دور میں شانتارام نے بہت سےموضوعات پرفلمیں بنائیں جن میں ’ڈاکٹر کوٹنس کی امر کہانی‘ (۱۹۴۶ء)،’امر بھوپالی‘ (۱۹۵۱ء)،’جھنک جھنک پایل باجے‘ (۱۹۵۵ء)، ’دو آنکھیں بارہ ہاتھ‘ (۱۹۵۷ء)،اور’نو رنگ‘ (۱۹۵۹ء) شامل ہیں۔ ان فلموں میں انہوں نے انسانی ہمدردی، جبر اور سماجی ناانصافیوں کو موثر انداز میں پیش کیا۔
شانتارام کو۱۹۸۵ءداداصاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔انہیں ۱۹۹۲ءمیں’پدم وبھوشن‘سےبھی نوازا گیا۔ ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو وی شانتا رام دنیا سے رخصت ہوگئے، لیکن پیچھے وہ روشنی چھوڑ گئے جو آج بھی نئے فلم سازوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو رہی ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK