پانی کی ایک پُرسکون سطح پر ایک چھوٹا سا کنکر ہلچل مچا دیتا ہے اور زندگی کی سہانی شام میں ماضی کا ایک نقش۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب میرے پاس سوال تو بہت تھے مگر جواب بتانے والا کوئی نہیں۔
پانی کی ایک پُرسکون سطح پر ایک چھوٹا سا کنکر ہلچل مچا دیتا ہے اور زندگی کی سہانی شام میں ماضی کا ایک نقش۔ مجھے یاد ہے وہ دن جب میرے پاس سوال تو بہت تھے مگر جواب بتانے والا کوئی نہیں۔ میرے سوالات میرے ذہن میں گھومتے رہتے اور میں بنا کسی منزل کے مسافروں کی طرح ان کے اردگرد گھومتا رہتا۔ مَیں ایک یتیم تھا۔ یتیم لفظ کا اصل معنی صرف ہم یتیم ہی سمجھ سکتے ہیں۔ نہ ماں کی آنچل کا سایہ نہ باپ کا شفقت بھرا ہاتھ۔ ہر انجان چہرہ میں پیار و توجہ پانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ مَیں نے اپنی آنکھیں ایک ٹرسٹ میں کھولیں جو یتیم بچوں کی رہنمائی کرتی تھی۔ وہاں سیکڑوں بچوں کی بھیڑ میں ایک مَیں بھی تھا۔ وقت پر ہمیں پڑھایا جاتا، کھانے کے نام پر گِن کر دو روٹی بھی مل جاتی تھی اور سال میں کچھ کپڑے جو ہماری ضرورت کے لئے کافی تھے۔
ٹرسٹ کی عمارت کے سامنے شہر کا سب سے مہنگا اسکول تھا، جدید طرز سے آراستہ۔ جہاں ہزاروں بچے تھے، خوبصورت، صحتمند بچے، بنا کسی سوچ و فکر والے بچے، ہر لحاظ سے جنّت کے پھول لگتے تھے۔ وہ صرف ایک اسکول نہیں تھا بلکہ میرے خوابوں کا مرکز تھا۔ مَیں ہر دن، ہر لمحہ اس اسکول میں پڑھنے کا خواب دیکھتا۔ اور میری خوش قسمتی تھی کہ مَیں نے مختصر سی عمر میں خواب کو حقیقت میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ اور پھر کیا تھا میری تو دُنیا ہی بدل گئی۔ شہر کے ایک رئیس معتبر شخص نے مجھے اپنا نام دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اسلئے انہوں نے اپنا سب کچھ مجھ پر نچھاور کر دیا۔ زندگی کی تیز رفتار میں سارے سوال، الجھن، پریشانیاں پیچھے رہ گئیں۔ کانٹوں سے لدے راستے پھولوں سے سج گئے۔
مجھے یاد ہے وہ پہلا دن جب اس اسکول میں داخلہ فارم پر فوٹو لگوانے کے لئے مَیں نے پہلی بار فوٹو بنوایا۔ پہلی بار مَیں نے اپنا روپ آئینہ میں نہیں بلکہ کاغذ کے مضبوط ٹکڑے پر دیکھا اور اسکول کے گیٹ پر کھڑا وہ پتلا جس سے پہلی بار میں پانچ منٹ تک ہاتھ ملاتا رہا اس امید سے کہ وہ اپنا ہاتھ ہٹانے کو بولے گا۔ مجھے تو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ ربڑ سے اس طرح کی کوئی چیز بھی بن سکتی ہے۔ مجھے کتابوں کے وہ رنگین صفحات جنہیں دیکھ کر میری آنکھیں خوش ہوجاتی تھی اور اسکول کے زمانہ کے وہ معصوم دوست جن سے ایک پینسل گم ہوجانے پر دشمنی اور ایک ٹافی بانٹنے سے دوستی ہوجاتی تھی۔ آج تک ذہن میں تازہ ہے۔
مَیں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ زندگی رہی تو پہلا کام ایک ایسا اسکول بنوانے کا کروں گا جو معیاری تعلیم دے اور مفت بھی ہو۔ جب عقل و شعور کی دہلیز پر پہنچا تو پتہ چلا کہ اسکول بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ پھر سوچا اور دل کو تسلی دی کہ چلو کوئی بات نہیں ایک کوچنگ سینٹر ہی کھول دوں گا جس میں بچے مفت میں تعلیم حاصل کرسکیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی مصروفیت اور شاید خود غرضی میرے بچپن کے خواب پر چادر ڈالتی گئی لیکن ایک کسک دل میں ہمیشہ رہی۔ جب بھی کوچنگ سینٹر شروع کرنے کا سوچتا تو میرے اندر کا خود غرض انسان جاگ جاتا۔ کبھی بیٹی کی پڑھائی کا سوچتا تو کبھی اس کی شادی کا سوچ کر ہمت جواب دے جاتی۔
’’ابّو، چلئے نا باہر لان میں.... اب بارش رک گئی ہے۔‘‘
میری پانچ سالہ بیٹی نے میرے شرٹ کو کھینچا اور اس کے ساتھ مَیں اپنے سوچوں کے جال سے نکلا۔
’’ہاں، چلو!‘‘ مَیں نے مختصر سا جواب دیا۔
’’آپ کیا سوچ رہے تھے؟‘‘ اس نے دوبارہ سوال کیا۔
’’اپنا خواب۔‘‘
’’آپ کا خواب؟‘‘
’’ہاں، میرا خواب تھا کہ مَیں ایک اسکول بناؤں۔‘‘ مَیں نے چلتے چلتے کہا۔
’’ٹھیک ہے چلئے نا اسکول بھی بناؤں گی۔‘‘ اس نے کہا۔
مَیں باہر لان میں آکر کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ جھک کر اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مٹی کرید کرید کر گھر جیسی شکل دینے لگی۔ کافی دیر بعد مَیں تھک کر اُٹھا اور اس کا ہاتھ مٹی سے نکال کر بولا، ’’اپنے ہاتھ کیوں گندے کر رہی ہو؟ ابھی بارش ہوئی ہے اس لئے اس میں کیڑے بھی ہوسکتے ہیں۔‘‘
’’ابّو، مَیں اسکول بنا رہی ہوں۔ جلدی جلدی کرنا ہے مجھے کیونکہ دیر ہوگئی تو مٹی سوکھ جائے گی۔‘‘ اس کی آواز نے میرے دماغ میں دھماکہ سا کیا اور مَیں ایک لمحہ کے لئے ساکت ہوگیا۔
’’دیر تو ہوئی ہے بیٹا مگر ابھی بھی وقت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر مَیں نے ہاتھ صاف کیا اور گیٹ کی طرف بڑھا، ان خوابوں کو پورا کرنے کیلئے جو برسوں پہلے میری آنکھوں نے دیکھے تھے اور اس خواب کو عمارت کی شکل اور حقیقت کا روپ دینے کیلئے جو آج بھی لاکھوں معصوم خوابوں کا مرکز ہے۔