یہ قلعہ مضبوط ہونے کے ساتھ تاریخ کے کئی پہلو سمیٹے ہوئے ہے، یہاں کئی مجاہدین آزادی کو قید رکھا گیا اور جواہر لال نہرو نے یہیں اپنی کتاب لکھی تھی۔
EPAPER
Updated: September 18, 2025, 12:44 PM IST | Mohammed Habib | Mumbai
یہ قلعہ مضبوط ہونے کے ساتھ تاریخ کے کئی پہلو سمیٹے ہوئے ہے، یہاں کئی مجاہدین آزادی کو قید رکھا گیا اور جواہر لال نہرو نے یہیں اپنی کتاب لکھی تھی۔
مہاراشٹر کی سرزمین پرواقع احمد نگر کا قلعہ نہ صرف تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے درج ہےبلکہ آج بھی یہ سیاحوں کے لیےماضی کی عظمت و شوکت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ دکن کی بلند و بالاپہاڑیوں اور سرسبز میدانوں کے سنگم پر واقع یہ قلعہ صدیوں کے نشیب و فراز دیکھ چکا ہے، اور آج بھی اپنےشان و شوکت کےساتھ ایستادہ ہے۔
قلعے کی بنیاد اور تاریخی پس منظر
احمد نگر قلعہ سولہویں صدی کے آغاز میں احمد نظام شاہ اول نے تعمیرکروایاتھا، جب انہوں نے بہمنی سلطنت سے علیحدگی اختیار کر کے ۱۴۹۰ءمیں خود کو دکن کا خودمختار حکمراں قرار دیا۔ قلعہ دراصل ان کے اقتدار کی علامت اور دفاعی حکمت عملی کامظہر تھا۔ احمد نظام شاہ نے اسے تقریباً۱۴۹۴ء میں تعمیرکرایا اور اسے مضبوط دیواروں، خندقوں اور برجوں سے مزین کیا۔ بعد ازاں مغلوں، مراٹھوں، اور انگریزوں کےعہد میں بھی یہ قلعہ کئی معرکوں اور محاصروں کا مرکز بنا رہا۔
مجاہدین آزادی کو یہاں قید رکھا گیا
ایک وقت وہ بھی آیا جب۱۸۰۳ءمیں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس پر قبضہ کر لیا اور اسے فوجی چھاؤنی اور قید خانے کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ آزادی کی تحریک کے دوران متعدد مجاہدینِ آزادی کو یہاں قید رکھا گیا، جن میں جواہر لال نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، مولاناابوالکلام آزاد اور مولانا شوکت علی جیسے رہنما بھی شامل تھے۔ نہرونے اسی قلعے کی فصیل کے اندر ’ڈسکوری آف انڈیا‘ جیسی شہرہ آفاق کتاب بھی تحریر کی۔
قلعے کی ساخت اور فن تعمیر
احمدنگرقلعہ اپنے وقت کے شاندار عسکری فنِ تعمیر کی ایک لازوال مثال ہے۔ یہ گول شکل کا قلعہ ہے جس کےاردگرد۳۰؍میٹرچوڑی خندق کھودی گئی ہے، جو ماضی میں پانی سے بھری رہتی تھی تاکہ دشمن آسانی سےداخل نہ ہو سکے۔ قلعے کی دیواریں ۲۰؍میٹر اونچی اور۹؍ میٹرموٹی ہیں، جو اسے ناقابلِ تسخیر بناتی تھیں۔ اندر داخل ہونے کے لیےبڑے لوہے کے دروازے اور مضبوط لکڑی کے پل موجود تھے جنہیں ضرورت کے وقت اوپر اٹھا لیا جاتا تھا۔
قلعےکے اندر کئی توپ خانے، برج، فوجی بیرکیں، اور قیدیوں کے سیل ہیں۔ یہاں کی فصیل پر کھڑے ہو کر آس پاس کے سرسبز مناظر اور پہاڑوں کا نظارہ آج بھی دل کو موہ لیتا ہے۔
سیاحت کے نقطۂ نظر سے اہمیت
احمد نگر قلعہ آج بھی سیاحوں کے لیے ایک بڑا کشش کا مرکز ہے۔ تاریخ، آثارِ قدیمہ، اور آزادی کی تحریک سے دلچسپی رکھنے والے مسافر یہاں آ کر ماضی کے عظیم ابواب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ قلعے کے اندر قائم ’نہرو میموریل‘ایک چھوٹا سا عجائب گھر ہے جس میں نہرو اور دیگرلیڈروں کے استعمال کی اشیاء اور تصاویر رکھی گئی ہیں۔ قلعے کے اطراف کا علاقہ بھی خاصا پرسکون اور قدرتی حسن سے بھرپور ہے، جہاں شام کے وقت سورج ڈھلنے کا منظر دیکھنے سے دل کو ایک عجیب سکون ملتا ہے۔ احمد نگر شہر میں قیام و طعام کی بہترین سہولتیں دستیاب ہیں اور یہ علاقہ ہوٹلوں، ریستورانوں اور بازاروں سے بھرا ہوا ہے۔ احمد نگر قلعہ محض ایک تاریخی یادگار نہیں، بلکہ دکن کی تاریخ، فن تعمیر، اور آزادی کی جدوجہد کا ایک زندہ استعارہ ہے۔ اس کی پتھریلی فصیلیں آج بھی صدیوں پرانی داستانیں سناتی ہیں اوریاد دلاتی ہیں کہ قومیں اپنی جڑوں کو بھلا کر آگے نہیں بڑھ سکتیں۔
یہاں کیسے پہنچیں
احمد نگر شہر سڑک اور ریل دونوں راستوں سے مہاراشٹر کے بڑے شہروں جیسےپونے(۱۲۰؍کلومیٹر)، ناسک(۱۵۶؍کلومیٹر)، اور ممبئی (۲۶۰؍کلومیٹر) سے بخوبی جڑا ہوا ہے۔ احمد نگر ریلوے اسٹیشن سے قلعہ صرف۲؍کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جہاں مقامی آٹو رکشہ یا ٹیکسی سےآسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ پونے یا ممبئی سے بذریعہ کار سفر تقریباً ۴؍ سے۵؍ گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔