• Fri, 05 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

شنیوار واڈا : پونے کا مشہور محل،مغلیہ اور مراٹھا طرز تعمیر کا امتزاج

Updated: September 04, 2025, 12:36 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai

یہ محل پونے کے اہم سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ اس کے قریب طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا نظارہ قابل دید ہوتاہے۔

An interior view of Shaniwar Wada. Photo: INN
شنیوار واڑا کا اندرونی منظر ہے۔ تصویر: آئی این این

 شنیوار واڈا پونے کا ایک مشہور محل ہے جو۱۷۳۲ء میں بنایا گیا تھا جو پیشواؤں کے دور حکومت اور شیواجی مہاراج کے دور کی شان و شوکت کو بیان کرتا ہے۔ شنیوار واڈا مراٹھا شاہی فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ جب اس قلعے کاواڈا بنایا گیا تب اس نے شہر کے تقریباً پورے رقبے کو کور کیا تھا جو اب کم ہو کر صرف۶۲۵؍ ایکڑ رہ گیا ہے۔ شنیوار واڈا دھوکہ دہی اور فریب کی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پیشواؤں کی شان و شوکت، بہادری اور انصاف پسند حکمرانی کا آخری پائیدار ثبوت بھی ہے۔ یہ محل پونے شہر کے آس پاس کے سب سے زیادہ قابل تعریف سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ شنیوار واڈا کے قریب طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا نظارہ بہت خوبصورت ہوتاہے جسے دیکھنے کے لئے سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔ اگر آپ بھی شنیوار واڈا جانے کا ارادہ کر رہے ہیں یا اس مشہور محل کے بارے میں مزید جانناچاہتے ہیں تو اس مضمون میں   رہنمائی کی گئی ہے۔ 
تاریخ
 جب ہم شنیوار واڈا کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ شنیوار واڈا۱۸؍ویں صدی میں باجی راؤ اول نے بنایا تھا جس نے مراٹھا حکمراں چھترپتی شاہو کے پیشوا یا وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ محل کی تعمیر کا آغاز ابتداء میں پتھر سے کیا گیا تھا لیکن کچھ افراد نے اس کی مخالفت کی اور دلیل دی کہ پتھر کا محل صرف بادشاہ کے پاس ہو سکتا ہے، چنانچہ شنیوار وڈا کی تعمیر اینٹوں سے شروع ہوئی۔ اس خوبصورت ڈھانچے کو مکمل کرنے میں دو سال لگے جس میں مغل فن تعمیر ا ور مراٹھا شاہی فن تعمیر کا بہترین امتزاج تھا۔ 
آگ اور دھماکہ
 ۱۷۹۱ء میں پہلی بڑی آگ نے قلعے کے ایک اہم حصے تباہ کر دیا جسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ پھر۱۸۰۸ء میں اگلے دھماکے میں محل میں موجود تمام اہم نوادرات اور دستاویزات جل گئے۔ 
 شنیوار واڈا پر حملہ
 ۱۸۱۲ء میں ایک اور آگ نے محل کی اوپر کی دو منزلیں تباہ کر دیں ، اس کے بعد۱۸۱۳ء میں ایک اور آگ لگی جس نے رائل ہال کو تباہ کر دیا۔ ۱۸۱۸ء میں انگریزوں نے شنیوار واڈا پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں تمام اوپر کی منزلیں گر گئیں۔ ۱۸۲۸ء میں محل کو ایک اور آگ نے لپیٹ میں لے لیا جو ایک ہفتہ تک جاری رہی جس میں پورا محل کھنڈر بن گیا۔ 
 شنیوار واڈا کی تعمیر اور ساخت
  مؤرخین کے مطابق شنیوار واڈا کی باقاعدہ بنیاد پیشوا باجی راؤ اول نے سنیچر۱۰؍ جنوری۱۷۳۰ءکو رکھی تھی۔ محل کا نام مراٹھی الفاظ شنیوار (سنیچر) اور واڈا (رہائشی کمپلیکس) کے نام پر رکھا گیا تھا۔ شنیوار واڈا مغل فن تعمیر کے ساتھ ساتھ مراٹھا طرز تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مرکزی دروازہ جسے دہلی دروازہ بھی کہا جاتا ہے، دشمن کے حملے کو روکنے کے لئے لوہے کی کیل سے سجایا گیا ہے کیونکہ یہ اتنا بڑا ہے کہ اس میں سے ایک ہاتھی گزر سکتا ہے۔ دروازے کے اوپر ایک چھوٹا سا کوریڈور ہے جس میں گنبد نما کھڑکیاں ہیں جو یقینی طور پر مغلیہ عہد کے فن تعمیر سے ماخوذ ہیں۔ 
 اس دروازے کے علاوہ واڈا کے چار اور دروازے ہیں جن کے نام مستانی دروازہ، کھڑکی دروازہ، گنیش دروازہ اور نارائن دروازہ ہیں۔ دیواروں پر پھولوں کی نقاشی اور پینٹنگز ہیں جو مغلیہ طرز تعمیر سے مشابہت رکھتی ہیں۔ 
 رامائن اور مہابھارت کے مناظر بھی مختلف اہم مقامات پر پینٹ کئے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ کھڑکیاں اور دروازے بھی گنبد نما ہیں جو مغلیہ فن تعمیر کوظاہر کرتے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ آگ سے تباہ ہونے سے قبل یہ قلعہ ۶؍ منزلہ تھا۔ آخر میں باغ میں ۱۶؍ پنکھڑیوں والا کمل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK