آدتیہ دھر نے ’اری‘ کے بعد پاکستان کو موضوع بناکر ایک اور فلم پیش کی ہے جس میں کئی بڑے ستاروں اوران کی عمدہ اداکاری کو استعمال کیا ہے۔
فلم’دھرندھر‘ کے ایک منظر میںرنویر سنگھ کو دیکھا جاسکتاہے۔ تصویر:آئی این این
دھرندھر (Dhurandhar)
اسٹارکاسٹ:رنویر سنگھ، ارجن رامپال، مادھون، سنجے دت، اکشے کھنہ، سارا ارجن، ادئے بیر سندھو، راکیش بیدی،میر سلمان
رائٹر اورڈائریکٹر :آدتیہ دھر
پروڈیوسر:جیوتی دیشپانڈے، آدتیہ دھر، لوکیش دھر
موسیقار:شاشوت سچدیو
سنیماٹو گرافر:وکاش نولکھا
ایڈیٹر:شیو کمار پنیکر
کاسٹنگ ڈائریکٹر:مکیش چھابڑا
پروڈکشن ڈیزائن:سینی جوہری
آرٹ ڈائریکٹر:یوگیش بنسوڑے،چودھری نیلیش
ریٹنگ: ***
حالیہ برسوں میںحب الوطنی اور خفیہ مشنوں پر مبنی فلموں نے ایک مستقل رجحان کی صورت اختیار کر لی ہے۔’اُری: دی سرجیکل اسٹرائیک‘ کے بعد اب ہدایت کار آدتیہ دھر کی تازہ پیشکش ’دھُرندھر‘ اسی سلسلے کی اگلی کڑی کے طور پر سامنے آئی ہے، لیکن اس بار میدانِ جنگ سرحد پرفوجی آپریشن نہیں،بلکہ پاکستان کے اندر پھیلا وہ زیرِ زمین نیٹ ورک ہے جہاں سیاست، انڈرورلڈ اور دہشت گردی ایک دوسرےمیں پیوست ہو کر پورے خطے کو عدمِ استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ فلم کی کہانی ۹۰؍کی دہائی کے اواخر اور۲۰۰۰ءکی دہائی کے دہشت گردی زدہ ماحول کو پس منظر بناتی ہے، مگر انداز پیش کش مکمل طور پر آج کے ناظر کی رفتار، نفسیات اور ذوق کے مطابق ہے۔
فلم کی کہانی
فلم کی کہانی کا نقطۂ آغاز۱۹۹۹ءکےبدنام زمانہ قندھارہائی جیک جیسے ایک سانحے سے جڑا ہے، جب ایک طیارہ اغوا ہونے کے بعدحکومت کو مجبوراً چند اہم دہشت گردوں کو رہا کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں اس واقعے کےبعد خفیہ ایجنسی کے سربراہ اجَے سانیا ل (آر مادھون) اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ صرف دفاعی حکمتِ عملی کافی نہیں، دشمن کے گھر میں گھس کر اس کے نیٹ ورک کو اندر سے توڑنا ہوگا۔ بیوروکریسی، سیاسی مجبوریوں اور بین الاقوامی دباؤ کے باعث ان کا منصوبہ فائلوں میں دب کر رہ جاتا ہے، لیکن جب ملک کی پارلیمنٹ پر حملے جیسا بڑا واقعہ پیش آتا ہے تو بالآخر حکومت انہیں ایک خفیہ جوابی کارروائی، یعنی ’آپریشن دھُرندر‘ کی منظوری دیتی ہے۔
یہاں سے کہانی اپنے اصل ہیرو، حَمزہ (رنویر سنگھ) کے گرد سمٹنے لگتی ہے، جو ایک تیزطرار، حاضر دماغ، مگر اندر سے ٹوٹا ہوا انڈر کور ایجنٹ ہے۔ اسے افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل کیا جاتا ہے،جہاں اسے کراچی و گرد و نواح کے اس سماج میں گھل مل جانا ہے جوپولیس کی رشوت، سیاست دانوں کی سرپرستی اور اسلحہ و منشیات کے گٹھ جوڑ پرپلتا ہے۔ حَمزہ کا ہدف رحمان ڈکیت نامی خطرناک گینگ لیڈراور اس کے ذریعے اس پورے نیٹ ورک کے اصل دماغ تک رسائی حاصل کرنا ہے اور اپنا مشن انجام دیتا ہے۔
ہدایت کاری
آدتیہ دھر نے ’اُری‘ کے برعکس اس بار جنگی محاذ سے زیادہ اندرونی شہروں اور سڑکوںکو میدانِ کارزار بنایا ہے۔ کیمرہ اکثر تنگ گلیوں،نیم تاریک کمروں اور شور مچاتے بازاروں کے بیچ گھومتا ہے، جس سے ناظر کو حقیقی فضا کا احساس ہوتا ہے۔ فائرنگ، تعاقب اور دھماکوں کے مناظر میں ہینڈ ہیلڈ اور ڈرون شاٹس کا امتزاج فلم کو بڑے پردے کی وسعت دیتا ہے۔فلم کا ایڈیٹنگ پیٹرن چیپٹرز اور عنوانات میں بٹا ہوا ہے، جس سے بسا اوقات یہ تاثر بھی پیدا ہوتا ہے کہ جیسےناظر کوئی تحقیقی ڈاکومنٹری یا فائلوں میں بٹی رپورٹ دیکھ رہا ہو۔اگرچہ۳؍گھنٹے سے زائد کا دورانیہ زیادہ محسوس ہو سکتا ہے، لیکن رفتارعمومی طور پر تیز رہتی ہے۔ کہیں کہیں جذباتی مناظر اور رشتوں کے بیچ وقفہ آتا ہے، جسے اگر قدرے مختصر کیا جاتا تو مجموعی اثر اور بہتر ہو سکتا تھا۔
اداکاری
فلم کا سب سے مضبوط پہلو اس کی کاسٹنگ اور کردار نگاری ہے۔ مرکزی کردار حَمزہ کے طور پر رنویر سنگھ نے اپنی فطری توانائی کو اس طرح قابو میں رکھ کر استعمال کیا ہے کہ کردار کا جنونی پن اور ذہنی بوجھ دونوں ایک ساتھ ابھرتےہیں۔ انڈر کور ایجنٹ کے طور پر ایک لمحہ وہ نرم لہجے والا دوست، دوسرے لمحے بے رحم شوٹر، اور تیسرے مرحلےمیں سوالوں میں گھر اکیلا انسان دکھائی دیتا ہے۔ آنکھوں کی اداکاری خاص طور پر چند مناظر میں بہت متاثر کن ہے۔آر مادھون کا کردار نسبتاًمختصر مگر بامعنی ہے۔رحمان ڈکیت کے طور پر اکشے کھنہ چھا جاتے ہیں۔ان کی خاموشی، مختصر جملے اور بے رحمانہ فیصلوں کے بیچ جو سرد مہری نظر آتی ہے، وہ عام ولن سے کہیں الگ سطح پر لے جاتی ہے۔ ایس پی اسلم چودھری کے کردار میں سنجے دت پوری طرح جچتے ہیں۔ آئی ایس آئی افسر میجر اقبال کے طور پر ارجن رامپال کا انداز خشک اور سفاک ہے۔
کیوں دیکھیں؟
فلم ’اری‘ کے ہدایت کار آدتیہ دھر کی اس اگلی فلم کو آپ اس کے ایکشن اور مار دھاڑ کیلئے ایک مرتبہ دیکھ سکتے ہیں۔